بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کی اجازت کے بغیر اپنے باپ کے گھر جانے والی بیوی کے نفقہ کا حکم


سوال

 بیوی شوہر کی اجازت کے بغیراپنے گھر چلی جائے، جب کہ شوہرنے منع بھی کیا ہو، اس کے بعد وہ اپنے گھربیمار ہوجائے۔ درج بالا صورتِ حال میں کیا شوہرشرعی اعتبار سےبیوی کا علاج کروانے کا ذمہ دار ہے؟ کیا سسرال کے مطالبے پرمیڈیکلی خرچہ شرعی اعتبار سے شوہر کو دینا ضروری ہے؟

جواب

اگر بیوی بغیر کسی معقول وجہ کے اپنے شوہر کے گھر سے اپنے باپ کے گھر چلی گئی ہو   تو ایسی صورت میں شوہر سے اس کا نفقہ ساقط ہے۔سسرال والوں کااس سے علاج ومعالجہ کے خرچ کا مطالبہ درست نہیں۔

الفتاوى الهندية (1/ 545، 546):

"وإن نشزت فلا نفقة لها حتى تعود إلى منزله، والناشزة هي الخارجة عن منزل زوجها المانعة نفسها منه ... ولو مرضت الزوجة بعد الدخول فانتقلت إلى دار أبيها، قالوا: إن كانت بحال يمكنها النقل إلى بيت الزوج في محفة أو نحوها، فلم تنتقل فلا نفقة لها، وإن كان لا يمكن نقلها فلها النفقة، كذلك في فتاوى قاضي خان".  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908201034

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں