بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سورہ فاتحہ کا نزول نماز کی فرضیت سے پہلے ہوا یا بعد میں؟


سوال

سورہ فاتحہ کا نزول نماز کی فرضیت سے پہلے ہوا ہے یا بعد میں؟

جواب

سورہ فاتحہ کا نزول اور  نماز کی فرضیت دونوں راجح قول کے مطابق مکہ میں ہوئی، البتہ ہمیں اس کی صراحت نہیں ملی کہ ان میں سے کون مقدم ہے اور کون مؤخر، کیوں کہ مفسرین نے سورہ فاتحہ کی تفسیر میں کہیں بھی سورہ فاتحہ کے نزول کا سنہ ذکر نہیں کیا ہے، البتہ کچھ قرائن سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سورہ فاتحہ کا نزول پنج وقتہ نماز کی فرضیت سے پہلے ہوا ہے،   چنانچہ شمس الدین قرطبی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں سورہ فاتحہ کے نزول کے بارے میں بحث کرتے ہوئے فرمایا ہے:

’’یہ بات ثابت  نہیں ہے کہ اسلام میں کبھی بھی کوئی بھی نماز   {الحمد لله رب العالمين}(یعنی سورہ فاتحہ )  کے بغیر بھی تھی۔ اس بات پر یہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے’’لَا صَلَاةَ إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ‘‘ (یعنی  سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی)، اس لیے کہ اس حدیث میں حکم کا بیان ہے  کہ جس نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی جائے، وہ نماز کامل نہیں ہوتی، تو جب نماز کے کامل طور پر ادا ہونے کے لیے سورہ فاتحہ کا پڑھنا لازم ہے تو اس سے یہ بات بھی سمجھ آتی ہے کہ پہلے سورہ فاتحہ کا نزول ہوا پھر نماز فرض ہوئی، ورنہ اگر سورہ فاتحہ کے نزول سے پہلے نماز فرض ہوچکی ہوتی تو اس وقت نماز میں سورہ فاتحہ  پڑھنا ممکن نہ ہوتا اور سورہ فاتحہ کے بغیر نماز بھی نہ ہوتی‘‘۔

خلاصہ یہ ہوا کہ یقینی طور پر تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ سورہ فاتحہ پہلے نازل ہوئی یا نماز پہلے فرض ہوئی، لیکن یہ حدیث  ’’لَا صَلَاةَ إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ‘‘ سورہ فاتحہ کے نزول کے مقدم ہونے پر دلالت کرتی ہے، نیز سورہ فاتحہ کے نزول کے حوالے سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ  ابتدائی زمانے میں نازل ہوئی ہے، جب کہ پنج وقتہ نماز کی فرضیت معراج کے موقع پر ہوئی ہے؛ اس لیے غالب گمان یہی ہے کہ سورہ فاتحہ نماز کی فرضیت سے پہلے ہی نازل ہوئی ہے۔

تفسير القرطبي (1/ 115):

"الثَّانِيَةُ: اخْتَلَفُوا أَهِيَ مَكِّيَّةٌ أَمْ مَدَنِيَّةٌ؟ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَقَتَادَةُ وَأَبُو الْعَالِيَةِ الرِّيَاحِيُّ وَاسْمُهُ رُفَيْعٌ وَغَيْرُهُمْ: هِيَ مَكِّيَّةٌ. وَقَالَ أَبُوهُرَيْرَةَ وَمُجَاهِدٌ وَعَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ وَالزُّهْرِيُّ وَغَيْرُهُمْ: هِيَ مَدَنِيَّةٌ. وَيُقَالُ: نَزَلَ نِصْفُهَا بِمَكَّةَ، وَنِصْفُهَا بِالْمَدِينَةِ. حَكَاهُ أَبُو اللَّيْثِ نَصْرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ السَّمَرْقَنْدِيُّ فِي تَفْسِيرِهِ. وَالْأَوَّلُ أَصَحُّ لِقَوْلِهِ تَعَالَى:" وَلَقَدْ آتَيْناكَ سَبْعاً مِنَ الْمَثانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ" [الحجر: 87] وَالْحِجْرُ مَكِّيَّةٌ بِإِجْمَاعٍ. وَلَا خِلَافَ أَنَّ فَرْضَ الصَّلَاةِ كَانَ بِمَكَّةَ. وَمَا حُفِظَ أَنَّهُ كَانَ فِي الْإِسْلَامِ قَطُّ صَلَاةٌ بِغَيْرِ{الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ}، يَدُلُّ عَلَى هَذَا قَوْلُهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ: (لَا صَلَاةَ إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ)".

تفسير ابن كثير ط العلمية (1/ 18):

"وَهِيَ مَكِّيَّةٌ قَالَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ وَقَتَادَةُ وَأَبُو الْعَالِيَةِ، وَقِيلَ مَدَنِيَّةٌ قَالَهُ أَبُو هُرَيْرَةَ وَمُجَاهِدٌ وَعَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ وَالزُّهْرِيُّ وَيُقَالُ نَزَلَتْ مَرَّتَيْنِ: مَرَّةً بِمَكَّةَ وَمَرَّةً بِالْمَدِينَةِ، وَالْأَوَّلُ أَشْبَهُ لِقَوْلِهِ تَعَالَى: وَلَقَدْ آتَيْناكَ سَبْعاً مِنَ الْمَثانِي [الحجر: 87] والله تعالى أَعْلَمُ".

التفسير المظهري (1/ 2):

"مكيّة وهي سبع آيات خمسة وعشرون كلمة مائة وثلثة وعشرون حرفاً ربّ يسّر وتمّم بالخير بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ فاتحة الكتاب وأم القران سميت بهما؛ لأنها أصل القرآن منها يبدأ. وهي السبع المثاني لأنها سبع آيات بالاتفاق وتثنى في الصلاة وقيل: أنزلت مرتين- بمكة والمدينة-، والأصح أنها مكية قبل سورة حجر. روى ابن جرير عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: هي أم القران وهي فاتحة الكتاب وهي السبع المثاني. انتهى. وهي سورة الكنز؛ روى إسحاق بن راهويه عن علي رضي الله عنه قال: حدثنا نبى الله صلى الله عليه وسلم أنها أنزلت من كنز تحت العرش. وهي سورة الشفاء؛ لما سنذكر في الفضائل أنها شفاء من كل داء".

تفسير الخازن لباب التأويل في معاني التنزيل (1/ 15):

"وهي سبع آيات بالاتفاق وسبع وعشرون كلمةً ومائة وأربعون حرفاً. واختلف العلماء في نزولها فقيل: نزلت بمكة، وهو قول أكثر العلماء. وقيل: نزلت بالمدينة وهو قول مجاهد. وقيل: نزلت مرتين بمكة ومرةً بالمدينة، وسبب ذلك التنبيه على شرفها وفضلها، ولها عدة أسماء وكثرة الأسماء تدل على شرف المسمى وفضله ". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200275

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں