بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر کے لیے سودی قرض لینا


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مسئلہ ذیل کے متعلق :

تنویر احمد کا اپنا کوئی مکان نہیں ہے، وہ شادی شدہ ہیں، ان کے دو بڑے بڑے بچے ہیں،  فی الحال گھر تیار کرنے کی کوئی جائز صورت انہیں نظر نہیں آرہی ہے،بٹوارہ ہونے کی وجہ سے جس گھر میں وہ رہ رہے تھے وہ گھر دوسرے بھائی کے حصے میں چلا گیا ہے، جس کی وجہ سے فوری طور پر انہیں دوسرے گھر کی ضرورت ہے، تو وہ سودی قرض یا بینک سے لون لے سکتے ہیں؟ وافی و شافی جواب مرحمت فرما کر عند الناس مشکور اور عند اللہ اجر عظیم کے مستحق ہوں!

جواب

گھر انسان کی بنیادی ضرورت ہے، لیکن  یہ ضرورت  کرایہ کے مکان میں رہ کر بھی پوری کی جاسکتی ہے، لہذا   گھرخریدنے یا مکان بنانے کے لیے سودی قرضہ حاصل کرنا جائز نہیں۔ پنج وقتہ نماز باجماعت پڑھیں، تلاوت اور استغفار کی کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں، اور حسبِ استطاعت صدقہ بھی نکالیں، ان شاء اللہ حالات بہت جلد بہتر ہوجائیں گے۔ انہی آزمائشوں کے لیے صبر اور اس کے فضائل ہیں۔

'وکل قرض شرط فیہ الزیادۃ فہو حرام بلا خلاف، قال ابن المنذر: أجمعوا علی أن المسلف إذا شرط علی المستسلف زیادۃً أو ہدیۃً، فأسلف علی ذٰلک أن أخذ الزیادۃ علی ذٰلک ربا، قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کل قرض جر منفعۃً فہو ربا'۔ (إعلاء السنن، کتاب الحوالۃ / باب کل قرض جر منفعۃ فہو رہا ۱۴؍۴۹۹ إدارۃ القرآن کراچی، فیض القدیر ۹؍۴۴۸۷ رقم: ۶۳۳۶ مکتبۃ نزار مصطفیٰ الباز ریاض) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200173

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں