بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی رقم سے اشیاء خریدنا


سوال

کیا سود کی رقم کو کسی چیز کے عوض میں بطورِثمن کے دینا جائز ہے یا نہیں ؟

جواب

سود لینا اور سود دینا دونوں ہی  حرام اور ناجائز ہیں،حدیث شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے افراد پر لعنت فرمائی ہے،چناں چہ مشکاۃ شریف کی روایت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

'' رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے ،  سود دینے والے ، سودی لین دین کا کاغذ لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر سب ہی پر لعنت فرمائی ہے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ سب (اصل گناہ میں) برابر ہیں اگرچہ مقدار کے اعتبار سے مختلف ہوں (مسلم)''۔

لہذا جان بوجھ کر سود لینا حرام ہے، اور سود کی رقم کے حصول کے لیے سیونگ اکاؤنٹ کھلوانابھی ناجائزہے،البتہ اگر کسی کے پاس لاعلمی یا غفلت میں سود کی رقم آگئی تو اس سودی رقم کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اصل مالک تک رقم پہنچانا ممکن ہو تو مالک کو یہ رقم واپس کی جائے، اگر اصل مالک یا اس کے ورثاء تک یہ رقم پہنچانا ممکن نہ ہو تو پھر ثواب کی نیت کے بغیر مستحقِِ زکاۃ شخص کو صدقہ کردی جائے۔ سودی رقم کو استعمال کرتے ہوئے اس سے خریداری جائز نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909202302

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں