بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سعودی عرب میں رہنے والے کا پاکستان میں تیسرے دن کسی کو قربانی کرنے کا وکیل بنانا


سوال

سعودیہ میں ایک آدمی پہ قربانی واجب تھی مگر اس نے نہیں کی، تیسرا دن بھی گزر گیا، اب وہ چوتھے دن پاکستان میں کسی کوفون کر کے کہتا ہے کہ میری طرف سے قربانی کردو، تو اس طرح قربانی ہوجائے گی؟ یہ بھی بتائیں کہ اس کے لیے افضل کیا ہے کہ صدقہ دے بکرے کی قیمت کا یا پاکستان میں کسی کو وکیل بنائے قربانی کا ؟

جواب

اگر آدمی خود کسی اور ملک میں ہو اور قربانی کے لیے کسی کو  دوسرے ملک میں وکیل بنائے تو اس صورت میں قربانی کے درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ قربانی دونوں ممالک کے مشترکہ ایام میں ہو، یعنی جس دن قربانی کی جائے وہ دن دونوں ممالک میں قربانی کا مشترکہ دن ہو، ورنہ قربانی درست نہیں ہوگی، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سعودی عرب میں چوں کہ عام طور پر پاکستان سے ایک دن پہلے قربانی کے ایام شروع ہوتے ہیں، (اور اس سال بھی سعودی عرب میں ایک دن پہلے عید ہوئی ہے)؛ اس لیے سعودی عرب میں رہنے والے شخص کی قربانی پاکستان میں پہلے اور دوسرے دن کرنا تو صحیح ہوگا؛ کیوں کہ یہ دونوں دن سعودی عرب میں قربانی کے دوسرے اور تیسرے دن ہوں گے، اس اعتبار سے یہ دونوں دن دونوں ممالک میں قربانی کے مشترکہ دن ہوں گے، لیکن سعودی عرب میں رہنے والے شخص کی قربانی پاکستان میں قربانی کے تیسرے دن صحیح نہیں ہوگی، کیوں کہ پاکستان میں قربانی کا تیسرا دن سعودی عرب میں عید کا چوتھا دن ہونے کی وجہ سے قربانی کا دن نہیں ہوگا؛ کیوں کہ قربانی کے ایام صرف تین ہیں، چناں چہ اگر سعودی عرب میں رہنے والے شخص نے تین دن تک قربانی نہیں کی تو چوتھے دن پاکستان میں کسی کو قربانی کرنے کا وکیل بنانے کے بجائے اب قربانی کے بقدر رقم صدقہ کر دے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 74)

''وإن كان الرجل في مصر، وأهله في مصر آخر، فكتب إليهم أن يضحوا عنه روي عن أبي يوسف أنه اعتبر مكان الذبيحة، فقال: ينبغي لهم أن لايضحوا عنه حتى يصلي الإمام الذي فيه أهله، وإن ضحوا عنه قبل أن يصلي لم يجزه، وهو قول محمد - عليه الرحمة -. وقال الحسن بن زياد: انتظرت الصلاتين جميعاً، وإن شكوا في وقت صلاة المصر الآخر انتظرت به الزوال، فعنده لا يذبحون عنه حتى يصلوا في المصرين جميعاً، وإن وقع لهم الشك في وقت صلاة المصر الآخر لم يذبحوا حتى تزول الشمس، فإذا زالت ذبحوا عنه.

(وجه) قول الحسن: أن فيما قلنا اعتبار الحالين: حال الذبح وحال المذبوح عنه، فكان أولى. ولأبي يوسف ومحمد رحمهما الله أن القربة في الذبح، والقربات المؤقتة يعتبر وقتها في حق فاعلها لا في حق المفعول عنه، ويجوز الذبح في أيام النحر نهرها ولياليها؛ وهما ليلتان: ليلة اليوم الثاني وهي ليلة الحادي عشر، وليلة اليوم الثالث وهي ليلة الثاني عشر، ولا يدخل فيها ليلة الأضحى وهي ليلة العاشر من ذي الحجة؛ لقول جماعة من الصحابة -رضي الله عنهم -: أيام النحر ثلاثة، وذكر الأيام يكون ذكر الليالي لغة، قال الله عز شأنه في قصة زكريا عليه الصلاة والسلام: ﴿ ثَلٰثَةَ اَيَّامٍ اِلَّا رَمْزًا﴾ [آل عمران: 41] وقال عز شأنه في موضع آخر: ﴿ثَلٰثَ لَيَالٍ سَوِيًّا﴾ [مريم: 10] والقصة قصة واحدة، إلا أنه لم يدخل فيها الليلة العاشرة من ذي الحجة؛ لأنه استتبعها النهار الماضي وهو يوم عرفة؛ بدليل أن من أدركها فقد أدرك الحج، كما لو أدرك النهار وهو يوم عرفة، فإذا جعلت تابعةً للنهار الماضي لا تتبع النهار المستقبل، فلا تدخل في وقت التضحية، وتدخل الليلتان بعدها، غير أنه يكره الذبح بالليل؛ لا لأنه ليس بوقت للتضحية، بل لمعنى آخر ذكرناه في كتاب الذبائح، والله عز شأنه أعلم''.فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201946

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں