بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سحری اور افطاری کی دعا


سوال

کیا یہ دعا درست ہے؟ روزہ رکھتے وقت درج ذیل دعا پڑھنی چاہیے :وَبِصَومِ غَدٍ نَّوَيْتُ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ.’’میں نے کل کے ماہِ رمضان کے روزے کی نیت کی۔‘‘ یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ روزہ رکھنے کی دعا کسی حدیث مبارکہ میں منقول نہیں۔ اصل نیت فرض ہے جو دل کے ارادے کا نام ہے۔ نیت کا مطلب کسی چیز کا پختہ ارادہ کرنا ہے اور اصطلاح شرع میں نیت کا مطلب ہے کسی کام کے کرتے وقت اﷲ تعالیٰ کی اطاعت اور قرب حاصل کرنے کا ارادہ کرنا۔ نماز، روزہ، زکوۃ، حج وغیرہ جیسی عبادات میں نیت فرض ہے، لیکن الفاظ فرض نہیں، البتہ آج کل ذہن منتشر ہوتے ہیں، لہٰذا ایک تو زبان سے کہہ لینے سے دل کا ارادہ و قصد ظاہر ہو جائے گا، دوسرا زبان سے بولا جانے والا ہر لفظ نیکیوں میں لکھا جائے گا ؛ کیوں کہ رضائے الٰہی کی خاطر کیا جانے والا کام جو فی نفسہ خلافِ شریعت نہ ہو، تو اسلام اس کو قبول کرتا ہے۔ امر مستحسن کے طور پر اس کام پر اجر و ثواب اور فوائد و برکات بھی متحقق ہوتے ہیں۔ لہٰذا روزہ رکھتے وقت مروجہ دعا کے الفاظ بطور نیت دہرانا بدعتِ حسنہ یعنی اچھی بدعت ہے

۔  ملا علی قاری، مرقاة المفاتيح شرح مشکاة المصابيح، 2 :  304 لکھتے ہیں :جب کہ روزہ افطار کرنے کی دعا مختلف الفاظ کے ساتھ کتبِ حدیث میں بیان ہوئی ہے، جن میں سے ایک حضرت معاذ بن زہرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزہ افطار کرتے وقت یہ دعا پڑھتے تھے : اَللَّهُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلَی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ.( أبو داؤد، السنن، کتاب الصوم، باب القول عند الإفطار، 2 :  294، رقم :  2358 )’’اے اﷲ! میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے ہی دیے ہوئے رزق پر افطار کی۔‘‘ بعض کتبِ حدیث میں یہ دعا مختلف الفاظ کے ساتھ آئی ہے، جیسے وَعَلَيْکَ تَوَکَّلْتُ(اور میں نے تیرے اوپر بھروسہ کیا) یافَتَقَبَّلْ مِنِّی، اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ (پس تو (میرا روزہ) قبول فرمالے، بے شک تو خوب سننے والا جاننے والا ہے)؛ لیکن ملا علی قاری اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے ''مرقاۃ المفاتیح'' میں لکھتے ہیں کہ اگرچہ افطاری کی دعا میں وَبِکَ آمَنْتُکے الفاظ کی کوئی اصل نہیں، مگر یہ الفاظ درست ہیں، اور دعائیہ کلمات میں اضافہ کرنا جائز ہے (جس طرح بعض لوگ حج کے موقع پر تلبیہ میں اضافہ کر لیتے ہیں)۔ لہٰذا اس بحث کی روشنی میں ہم اِفطار کے وقت درج ذیل مروجہ دعا پڑھ سکتے ہیں :اَللَّهُمَّ اِنِّی لَکَ صُمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَعَلَيْکَ تَوَکَلَّتُ وَعَلَی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ.’’اے اﷲ! بے شک میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تجھ پر ایمان لایا اور تجھ پر ہی بھروسہ کیا اور تیرے ہی عطا کیے ہوئے رزق سے میں نے افطار کی۔‘‘؟

جواب

بصورتِ مسئولہ سحری میں  ’’ نویت أن أصوم غدًا ﷲ تعالیٰ من شهر رمضان‘‘یا  '' وَبِصَومِ غَدٍ نَّوَيْتُ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ''وغیرہ پڑھتے ہیں، یہ حدیث شریف سے ثابت نہیں،  نیز یہ دعا نہیں بلکہ نیت کے الفاظ ہیں، جو بطورِ مثال لوگوں  کی سہولت کے لیے لکھے اور سکھائے جاتے ہیں، لہٰذا د ل سے نیت کرنے کے ساتھ ساتھ اگر کوئی مذکورہ الفاظ یا کوئی اور الفاظ استعمال کرتاہے، تو  بہتر ہے؛  تاکہ زبان سے بھی نیت کا اظہار کردیا جائے۔

رمضان المبارک میں افطار کی دعا صحیح حدیث شریف سے ثابت ہے ابوداؤد شریف میں ہے:
''عن معاذ بن زهره أنه بلغه أن النبي صلی الله علیه وسلم کان إذا أفطر قال: اللّٰهم لک صمت وعلی رزقک أفطرت'' ۔ ( سنن أبي داؤد،کتاب الصیام ، باب القول عند الأفطار، النسخة الهندیة ۱/۳۲۲، دارالسلام رقم: ۲۳۵۸)

اور اس دعا میں ”وبک آمنت وعلیک توکلتُ“کا اضافہ "جامع الرموز" میں قہستانی نے ذکر کیا ہے۔ (کتاب الصوم قبل فصل الاعتکاف: ص۱۶۴)

لیکن  ملا علی قاری رحمہ اللہ نے ''مرقاۃ المفاتیح'' (۴:۴۲۶، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت) میں اورحضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہری رحمہ اللہ نے ''حصن حصین'' مترجم (ص۲۱۶) کے حاشیہ میں اس اضافہ کو بے اصل قرار دیا ہے اور حضرت مفتی محمد شفیع صاحب نور اللہ مرقدہ نے ''جواہر الفقہ'' (۳:۵۲۲ مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند) میں صرف مسنون الفاظ ذکر فرمائے ہیں۔لہذا صرف مسنون الفاظ پر اکتفا ہی بہتر ہے۔ البتہ اگر اسے مسنون دعا کا حصہ نہ سمجھتے ہوئے پڑھ لے تو اس سے منع نہیں کیا جائے گا۔

افطار کے بعد کی ایک اور دعا بھی حدیث میں آتی ہے۔

''ذهب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء الله'' ۔ (سنن أبي داؤد)

ترجمہ: پیاس چلی گئی، رگیں ترہوگئیں اور ان شاء اللہ اجر و ثواب ثابت ہوگیا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200123

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں