بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ستر ہزار پردوں کے فاصلہ والی رویات سے متعلق سوال


سوال

واٹس ایپ اور فیس بک پر ایک بات بہت مشہور ہے، اس کی کیا حقیقت ہے؟

ایک بار حضرت موسیٰ علیہ السلام  نے ﷲ سے پوچھا  کہ جتنا میں آپ سے قریب ہوں " آپ سے بات کرسکتا ہوں اتنا کوئی اور بھی آپ کے قریب ہے؟  ﷲ نے فرمایا: اے موسی! آخری زمانے میں ایک امت آئے گی - وہ امتِ محمدیہ ہوگی- اور اس امت کو ایک ماہ ایسا ملے گا جس میں وہ سوکھے ہونٹوں,  پیاسی زبان,  سوکھی ہوئی آنکھیں, اور بھوکے پیٹ کے ساتھ جب افطار کرنے بیٹھے گی, تب میں ان کے بہت قریب رہوں گا, موسی! تمہارے اور میرے بیچ میں ستر ہزار پردوں کا فاصلہ ہے؛ لیکن افطار کے وقت اُس امت اور میرے درمیان ایک بھی پردے کا فاصلہ نہیں ہوگا۔ اور وہ جو دعایئں مانگے گی اسے قبول کرنا میری ذمہ داری رہے گی۔ اگر میرے بندوں کو معلوم ہوتا کہ رمضان کیا ہے, تو وہ سب تمنا کرتے کہ کاش پورا سال رمضان ہی ہو!!

جواب

اس قسم کی ایک روایت  مشہور مؤرخ و ادیب " عبد الرحمن بن عبد السلام الصفوری الشافعی رحمہ اللہ  نے اپنی کتاب « نزهة المجالس و منتخب النفائس »میں  رمضان کی فضیلت کے بیان میں بلا سند ذکر کی ہے:

نزهة المجالس ومنتخب النفائس (1/ 165):
" قال موسى عليه السلام: يا رب أكرمتني بالتكليم، فهل أعطيت أحداً مثل ذلك؟  فأوحى الله تعالى: يا موسى! إن لي عباداً أخرجهم في آخر الزمان وأكرمهم بشهر رمضان فأكون أقرب لأحدهم منك؛ لأنك كلمتني وبيني وبينك سبعون ألف حجاب، فإذا صامت أمة محمد صلى الله عليه وسلم حتى ابيضت شفاههم واصفرت ألوانهم أرفع الحجب بيني وبينهم وقت إفطارهم، يا موسى طوبى لمن عطش كبده وأجاع بطنه في رمضان، وقال كعب الأحبار: أوحى الله إلى موسى أني كتبت على نفسي أن لا أرد دعوة صائم رمضان". 

جس کا حاصل یہ ہی ہے کہ اللہ تعالی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام کرتے تھے تو ان کے اور اللہ تعالی کے درمیان ستر ہزار پردے حائل ہو تے تھے، جب کہ افطار کے وقت امتِ محمدیہ کے دعا مانگتے وقت کوئی پردہ نہیں ہوتا۔

پہلی بات یہ ہے کہ مذکورہ روایت کی سند ذکر نہیں کی گئی کہ اس کی تحقیق کی جاتی۔ لہٰذا بلاتحقیق اسے بیان کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

اگر یہ حدیث سنداً صحیح اور ثابت بھی ہوتو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ (نعوذ باللہ) اس امت کے روزہ داروں کو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر فضیلت حاصل ہے، کوئی امتی خواہ کسی بھی امت کا ہو  کسی بھی نبی علیہ السلام کے مرتبے تک پہنچنا تو درکنار نبی کے پاؤں کی خاک کے برابر بھی نہیں ہوسکتا۔

اولاً اس حدیث میں افطارِ رمضان المبارک کے وقت امتِ محمدیہ کی دعاؤں کی قبولیت کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہم کلامی کے مقابل ذکر کیا گیا ہے، نہ کہ نبی کی دعا کا مقابلہ امتی کی دعا سے کیا جارہاہے۔ نبی کی دعا یقیناً قبولیت کے اس سے بھی زیادہ قریب ہوگی۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی فضلیت و شرف کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کی برکت سے امتِ محمدیہ کے روزہ داروں کو یہ فضیلت عطا کریں گے کہ اگرچہ وہ براہِ راست مجھ سے یوں ہم کلام نہیں ہوں گے، لیکن میں ان کی دعا ایسے قبول کروں گا جیسے کوئی حجاب درمیان میں نہ ہو۔ 

باقی حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقام و مرتبہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کیا ہے؟ وہ محتاجِ بیان نہیں ہے، صحیح بخاری میں ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ اور یہودی میں بحث ہوگئی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام افضل ہیں یا رسول اللہ ﷺ؟ یہودی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو افضل قرار دیا، اور مسلمان (صحابی) نے رسول اللہ ﷺ کو،  بحث بڑھی تو مسلمان نے یہودی کو ایک تھپڑ ماردیا، وہ یہودی شکایت لے کر فوراً رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اور پورا قصہ سنا دیا، رسول اللہ ﷺ بہت ناراض اور غصہ ہوئے، اور فرمایا (جس کا مفہوم یہ ہے کہ) مجھے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر فضیلت نہ دو، کیوں کہ قیامت کے دن جب صور پھونکا جائے گا اور سوائے باری تعالیٰ کے سب مخلوقات فنا ہوجائیں گی، تو سب سے پہلے میں ہوش میں آؤں گا،  لیکن میں دیکھوں گا حضرت موسیٰ علیہ السلام عرش کا پایہ پکڑے پہلے سے کھڑے ہوں گے،  اب مجھے معلوم نہیں کہ آیا ان پر بے ہوشی طاری ہی نہیں ہوگی (جس کی شدت وہ کوہِ طور پر برداشت کرچکے ہیں) یا وہ بھی بے ہوش ہوں گے لیکن مجھ سے بھی پہلے ہوش میں آجائیں گے۔

یہاں یہ موقع نہیں کہ انبیاءِ کرام علیہم السلام کے مابین فضیلت اور افضلیت کے مسئلے کی تحقیق و تفصیل پیش کی جائے۔  تاہم اتنی بات بداھۃً واضح ہے کہ کسی بھی امتی کو خواہ وہ افضل الصحابہ ہوں کسی بھی نبی کے مقام و مرتبہ سے کوئی نسبت نہیں ہے۔ لہذا اس روایت کی وجہ سے یہ سوچنا بالکل روا نہیں ہوگا کہ اس امت کے روزہ داروں کو زیادہ قرب حاصل ہوجاتاہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201049

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں