بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سال بعد عقیقہ کرنا


سوال

جس کے پاس عقیقہ کرنے کے پیسے نہ ہو ں  تو اس کیلے کیا حکم ہے، کیا وہ عقیقہ سال کے بعد کر سکتا ہے؟

جواب

عقیقہ کرنا  مستحب ہے، جس کے کرنے میں ثواب اور نہ کرنے میں کوئی گناہ نہیں۔جس کے پاس عقیقہ کے پیسے نہ ہوں تو  عقیقہ نہ کرے؛ اس لیے کہ عقیقہ کرنا لازم نہیں ہے۔ البتہ ساتویں دن بچہ کے بال کٹوادے،اس میں تاخیر نہ کرے۔ پھر ایک سال بعد عقیقہ کرنے کی گنجائش ہو تو عقیقہ کرلے،تاخیر کرنے کی صورت میں ایک قول کے مطابق استحباب کا درجہ باقی نہیں رہتا۔

''عن علي بن أبي طالب رضي اللّٰه عنه قال: عقّ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم عن الحسن بشاة، وقال: یا فاطمة! احلقي رأسه وتصدقي بزنة شعره فضةً، فوزناه فکان وزنه درهمًا أو بعض درهم''۔ (مشکاة المصابیح ، باب العقیقة ۲؍۳۶۲، سنن الترمذي ، باب ما جاء في العقیقة ۱؍۲۷۸)
'' العقیقة عن الغلام وعن الجاریة، وهي ذبح شاة في سابع الولادة وضیافة الناس وحلق شعره مباحة لا سنة ولا واجبة، کذا في وجیز الکردري''۔ (الفتاویٰ الهندیة ، الباب الثاني والعشرون في تسمیة الأولاد ۵؍۳۶۲ رشیدیه)

'' بچہ کی عمر ایک سال سے زائد ہوجائے تب بھی عقیقہ کرسکتے ہیں''۔ (بہشتی زیور ۳؍۴۲-۴۳)
''عن الحسن البصري: إذا لم یُعقّ عنک، فعقِّ عن نفسک وإن کنت رجلاً ''۔ (إعلاء السنن، کتاب الذبائح ، باب أفضلیة ذبح الشاة في العقیقة ۱۷؍۱۲۱ إدارة القرآن کراچی)
'' فنقل الرافعي أنه یدخل وقتها بالولادة … ثم قال: والاختیار أن لا تؤخر عن البلوغ، فإن أخرت عن البلوغ سقطت عمن کان یرید أن یعق عنه، لکن إن أراد أن یعق عن نفسه فعل''۔ (فتح الباري، کتاب العقیقة ، باب إماتة الأذی عن الصبي في العقیقة، ۹؍۵۹۴-۵۹۵ دار المعرفة بیروت)
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201454

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں