بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سالگرہ منانا اور تشبہ بالکفار کی حقیقت


سوال

آپ نے ایک سوال کے جواب میں لکھا کہ سالگرہ تشبہ بالکفار کی وجہ سے ممنوع ہے تو سوال یہ ہے کہ انگریزوں کی طرح ٹیکنالوجی کا استعمال (فیس بک، انٹرنیٹ)، سکول کالج کا نظام، قومی ترانے کے دوران کھڑے ہونا، معاشرتی نظام، عدالتی نظام وغیرہ میں یہ حکم کیوں لاگو نہیں ہوتا; کیوں کہ یہ سب بھی انگریزوں کی ہی عطا ہیں! میں نے ایک جگہ پڑھا تھا کہ تشبہ والی حدیث صرف مذہبی شعار کے تناظر میں ہے، نہ کہ دنیاوی معاملات کے بارے میں ہے۔ !!براہِ کرم راہ نمائی فرمائیں۔۔!!

جواب

مذہبی شعار میں غیر مسلموں کی مشابہت کے ناجائز ہونے میں تو کوئی شبہ ہی نہیں ہے، دنیاوی جائز امور، معاشرتی معاملات اور لباس وغیرہ میں بھی غیر مسلموں کی مشابہت ہوتی ہے، اور اس کا تعلق کبھی غیر مسلموں کے شعار  اور رسم ورواج سے اور کبھی جائز اور ضرورت کی چیز استعمال کرنے والے مسلمان کی نیت سے بھی ہوتاہے۔

نبی کریم ﷺ سے بعض معاشرتی اور عادات ولباس ے متعلق امور میں بھی غیر مسلموں کی مشابہت سے اجتناب کا حکم منقول ہے، مثلاً: آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے: ہمارے اور مشرکین کے درمیان عمامہ باندھنے میں فرق یہ ہے کہ ہم ٹوپی پر عمامہ باندھتے ہیں۔ مشرکینِ مکہ مذہبی شعار کے طور پر عمامہ نہیں باندھتے تھے، اس کے باوجود عمامہ باندھنے میں بھی مسلمانوں کو ان سے جداگانہ طرز اختیار کرنے کا حکم دیاگیا۔ اس طرح کی اور مثالیں بھی موجود ہیں جہاں اسلام نے مسلمانوں کو وضع قطع اور تہذیب وتمدن میں غیر مسلموں سے امتیاز کا حکم دیاہے۔

اب دیکھیے کہ لباس اور وضع قطع سے متعلق چیز میں  نبی کریمﷺ  نے امت کو غیر مسلموں سے امتیاز کا حکم دیا، دوسری طرف  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے غیر مسلموں کی بنائی ہوئی ضرورت کی چیزیں استعمال کرنا ثابت ہے، مثلاً: غیر مسلموں کے ہاں بنی ہوئی چپل، کپڑے، جو عمدہ ہوتے تھے، وہ استعمال کیے گئے۔ دونوں رُخ سامنے رکھنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے دنیا کی ضرورت کی چیزیں مسلمان بنائیں یا کافر بنائیں، انہیں ضرورت کے لیے استعمال کرنا جب کہ کفار کی مشابہت کی نیت نہ ہو تو وہ تشبہ میں داخل نہیں ہے، جب کہ کفار کے اعمال، رسم ورواج، تہذیب وتمدن اور وضع قطع سے انہی بزرگ شخصیات نے یہ کہہ کر منع فرمایاہے کہ یہ کفار کی مشابہت ہے۔

مزید وضاحت اور تفصیل کے لیے تشبہ کے احکام اور درجات سمجھ لیجیے، غیروں کے ساتھ مشابہت کے مختلف درجات ہیں، نیز انسان سے صادر ہونے والے افعال بھی مختلف ہیں، مطلقاً   کوئی ایک حکم اس کے تمام افعال پر نہیں لگایا جاسکتا۔

اختیاری طور پر جو افعال انسان انجام دیتا ہے اس کی دو قسمیں ہیں:مذہبی امور اور معاشرتی و عادی امور۔

مذہبی امور میں تشبہ کا حکم:

مذہبی امور سے مراد وہ امور و اعمال ہیں، جن کا تعلق مذہب سے ہو، یعنی: ان افعال و اعمال کو عبادت کے طور پر کیا جاتا ہو ، جیسے: نصاریٰ کی طرح سینے پرصلیب لٹکانا، ہندؤں کی طرح زنار باندھنایا پیشانی پر قشقہ لگانا، یا سکھوں کی طرح ہاتھ میں لوہے کا کڑاپہننا و غیرہ ، تو اس قسم کے مذہبی امور میں غیر اقوام کی مشابہت اختیار کرنا بالکلیہ ناجائز اورحرام ہے۔

معاشرتی و عادی امور میں تشبہ کا حکم:

معاشرتی و عادی امور بھی دو قسم کے ہوتے ہیں :

ایک وہ امور جو قبیح بالذات ہیں، یعنی : وہ امور جن سے شریعت نے براہِ راست منع کیا ہے کہ ان افعال کو نہ کیا جائے۔

دوسرے: وہ امور جو مباح بالذات ہیں، یعنی :وہ امور جن سے شریعت نے براہِ راست تو منع نہیں کیا؛ لیکن دیگر خارجی امور کی وجہ سے وہ ممنوع قرار دیے جاتے ہیں۔

قبیح بالذات امور میں تشبہ کا حکم:

قبیح بالذات امور میں غیر مسلم اقوام کی مشابہت اختیار کرنا بھی حرام ہے، جیسے : ٹخنوں سے نیچے شلوار لٹکانا، ریشمی لباس استعمال کرنا، یا کسی قوم کی ایسی حرکت کی نقل اتارنا جن میں ان کے معبودانِ باطلہ کی تعظیم ہوتی ہو، جیسے: بتوں کے آگے ہاتھ جوڑنا وغیرہ، ان افعال میں تشبہ کی حرمت اس وجہ سے ہے کہ یہ امور قبیح بالذات ہیں، شریعت کی طرف سے ان کی ممانعت صاف طور پر آئی ہے۔

مباح بالذات امور میں تشبہ کا حکم:

اگر وہ امور اپنی ذات کے اعتبار سے قبیح نہ ہوں؛ بلکہ مباح ہوں تو ان کی بھی دو صورتیں ہیں:

ایک: وہ امور کسی غیر قوم کا شعار (یعنی: علامتی و شناختی نشان) ہوں۔

دوسرے: وہ افعال جو کسی غیر قوم کا شعار نہ ہوں۔ ہر دو کی تفصیل ذیل میں لکھی جاتی ہے:

غیر اقوام کے شعار میں مشابہت کا حکم:

اگر وہ (مباح بالذات ) امور غیر مسلم اقوام کے شعارمیں سے ہوں تو ان امور میں غیر اقوام کی مشابہت اختیار کرنا حرام ہے، مثلاً: غیر مسلم اقوام کا وہ لباس جو صرف انہی کی طرف منسوب ہو اور انہی کی نسبت سے مشہور ہو اور اس مخصوص لباس کو استعمال کرنے والا انہی میں سے سمجھا جاتا ہو، جیسے : بدھی اور قشقہ۔

مطلقاً غیروں کے افعال میں مشابہت کا حکم:

اور اگر وہ مباح بالذات امور غیر مسلم اقوام کے شعار میں سے نہیں ہیں ، تو پھر ان افعال کی دو قسمیں ہیں کہ ان افعال کا بدل مسلمانوں کے پاس موجود ہے یا ان کا بدل مسلمانوں کے پاس موجود نہیں ہے۔ ان دونوں قسموں میں مشابہت کا حکم ذیل میں ملاحظہ فرمائیں:

ذی بدل اشیاء میں غیروں کی مشابہت کا حکم:

اگر ان مباح بالذات امور میں مسلمانوں کے پاس امتیازی طور پرایسے طور طریقے موجود ہوں جو کفار کے طور طریقوں کے مشابہہ نہ ہوں تو ایسے امور میں غیروں کی مشابہت مکروہ ہے، کیوں کہ اسلامی غیرت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم ان اقوام کی ان اشیاء کا استعمال بھی ترک کر دیں جن کا بدل ہمارے پاس موجود ہو، ورنہ یہ مسلم اقوام کے لیے عزت کے خلاف ایک چیزہو گی اور بلاضرورت خوامخواہ دوسروں کا محتاج و دستِ نگر بننا پڑے گا۔ جیسا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے ہاتھ میں فارسی کمان (یعنی : ملکِ ایران کی بنی ہوئی کمان) دیکھی تو ناخوشی سے ارشاد فرمایا کہ ”یہ کیا لیے ہوئے ہو؟ اسے پھنک دو اور عربی کمان اپنے ہاتھ میں رکھو ، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے تمہیں قوت و شوکت دی اور بلادِ ارض کو مفتوح کیا“۔ (سنن ابن ماجہ، باب السلاح، رقم الحدیث: ۲۸۱۰) فارسی کمان کا بدل عربی کمان موجود تھا؛ اس لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیرت دلا کر روک دیا؛ تاکہ غیر اقوام کے ساتھ ہر ممکن امتیاز پیدا ہوسکے اور چھوٹے سے چھوٹے اشتراک کا بھی انقطاع ہو جائے۔

غیر ذی بدل اشیاء میں غیروں کی مشابہت کا حکم:

اور اگر غیر اقوام کی اشیاء ایسی ہوں کہ ان کا کوئی بدل مسلم اقوام کے پاس موجود نہ ہو ، جیسے آج یورپ کی نئی نئی ایجادات، جدید اسلحہ، تہذیب و تمدن کے نئے نئے سامان، نیز انٹرنیٹ وغیرہ کی جدید سہولیات تو اس کی پھر دوصورتیں ہیں یا تو ان کا استعمال تشبہ کی نیت سے کیا جائے گا یا تشبہ کی نیت سے نہیں کیا جائے گا، پہلی صورت میں استعمال جائز نہیں ہوگا؛ کیوں کہ تشبہ بالکفار کومقصود بنا لینا، ان کی طرف میلان و رغبت کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا، اور کفار کی طرف میلان جائز نہیں ہے۔ ہاں ! اگر ان چیزوں میں تشبہ کی نیت نہ ہو ؛ بلکہ ضرورت کے طورپر یا اتفاقی طور پر استعمال میں آرہی ہوں، تو ضرورت کی حد تک ان کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (مجموعہ رسائل حکیم الاسلام، اسلامی تہذیب و تمدن : ۵/ ۱۲۸-۱۳۳، التنبہ علی ما فی التشبہ للکاندھلوی، ص: ۸ -۱۲ ، فیض الباری: ۲/ ۱۵، انوار الباری: ۱۱/ ۱۰۵، ۱۰۶)

اکابر کی بیان کردہ تفصیل کی روشنی میں آپ کے سوال کا جواب کا خلاصہ یہ ہے:

' جائز حدود میں ٹیکنالوجی کا استعمال نیز دنیاوی ضرورت کے امور میں غیر مسلموں کی بنائی ہوئی چیزوں کا استعمال جائز ہے؛ کیوں کہ غیر مسلموں کی تیار کردہ جائز اشیاء کا استعمال نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت ہے، نیز ان چیزوں کے استعمال کے وقت کسی مسلمان کی نیت غیر مسلموں کی مشابہت کی نہیں ہوتی، نہ کسی قوم کی رسم پوری کرنا مقصود ہوتاہے۔ بالفرض اگر کوئی ان چیزوں کے استعمال کے وقت یہ نیت رکھے کہ میں غیر مسلموں کی طرح نظر آؤں یا لوگ مجھے انہی کی طرح سمجھیں تو جہاں ایک طرف یہ احساسِ کم تری اور اسلامی تہذیب و تمدن اور وضع قطع سے بیزاری شمارہوگا، وہیں غیر مسلموں کی طرف میلان بھی ،  لہٰذا نیت کے فساد کی وجہ سے جائز اشیاء کا استعمال بھی ناجائزہوجائے گا۔

جہاں تک بات ہے سالگرہ کی! تو  اس کا تعلق دنیا و آخرت کی کسی ضرورت سے نہیں ہے، بس ایک رسم ہے، جس کا اہتمام اور دیگر خارجی امور (کیک وغیرہ کاٹنا، خاص اس موقع پر تحائف کا لین دین، اور بعض منکرات شرعیہ) کا التزام اسے کفار کی رسم کے مشابہ بنادیتاہے، اس وجہ سے اس سے منع کیا جاتاہے، اور غیر مسلموں کی وضع قطع اور تہذیب وتمدن اختیار کرنے سے ہمیں احادیث میں منع فرمایاگیاہے۔ بالفرض اگر کوئی شخص غیر مسلموں کی رسوم ورواج سے واقعۃً نفرت رکھتاہو ، اور سالگرہ کے لیے مروج اہتمام اور منکرات سے پاک ایک سادہ تقریب گھر میں رکھے، جس کا مقصد رب کے حضور اس بات کا شکرانہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے عافیت وصحت اور عبادات کی توفیق کے ساتھ زندگی کا ایک سال مکمل فرمایا ہے تو ان قیود کے ساتھ  حضرت گنگوہی رحمہ اللہ اور ہمارے بعض اکابر نے اس کی گنجائش دی ہے۔

لیکن ظاہر ہے ہمارے عرف میں نیکی کے یہ جذبات سالگرہ منانے والوں میں سے کس کے ہوتے ہیں؟! سب ہی جانتے ہیں۔ لہٰذا رائج منکرات کی موجودگی میں سالگرہ  منانے کے ناجائز ہونے کا ہی فتویٰ دیا جاتاہے'۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143811200087

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں