بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ریش بچہ کا حکم اور مونچھوں کی حد


سوال

کیا ریش بچہ اور آس پاس کے بال کترنا جائز ہے؟ نیز مونچھوں کی حد کیا ہے ؟

جواب

ریش بچہ یعنی نچلے ہونٹ سے متصل تھوڑی کے اوپر کے بال اور اس کے دائیں بائیں یہ داڑھی کاحصہ ہیں، انہیں منڈوانایانوچنا بدعت و خلافِ سنت ہے، البتہ ہونٹوں کے قریب دونوں کناروں سے بال ختم کرنا؛ تاکہ کھانا کھاتے وقت منہ میں نہ جائیں ،درست ہے۔ اور اوپر کے ہونٹ پر دونوں کناروں تک جہاں سے نچلے جبڑے کی حد شروع ہوتی ہے ، مونچھوں کی حد ہے ۔

ابن ماجہ کی روایت میں ہے:

'' حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ریش بچہ سفید دیکھا''۔(ابن ماجہ)

عمدۃ القاری میں ہے:

’’(قوله: خالفوا المشركين) أراد بهم المجوس، يدل عليه رواية مسلم: ’’خالفوا المجوس‘‘؛ لأنهم كانوا يقصرون لحاهم، ومنهم من كان يحلقها، و(قوله: وفروا) بتشديد الفاء أمر من التوفير وهو الإبقاء: أي اتركوها موفرةً، واللحى بكسر اللام وضمها بالقصر والمد جمع لحية بالكسر فقط، وهي اسم لما نبت على الخدين والذقن، قاله بعضهم، قلت: على الخدين ليس بشيء، ولو قال: على العارضين لكان صواباً‘‘(عمدۃ القاری32 / 66)

فتاوی ہندیہ  میں ہے:

’’ونتف الفنيكين بدعة، وهما جانبا العنفقة وهي شعر الشفة السفلى، كذا في الغرائب‘‘. (الہندیۃ، 3 / 358)

فتاوی شامی میں ہے:

’’ و نتف الفنیکین بدعة، و هما جانبا العنفقة وهي شعر الشفة السفلی. (الشامیة ٦/٤٠٧)

فیض الباری میں ہے:

فان قطع الأشعار التي علی وسط الشفة السفلی، أي العنفقة، بدعة، و یقال لها: ''ریش بچہ'' .(فیض الباری ٤/٣٨٠)

فتاوی شامی میں ہے:

'' وأما طرفا الشارب وهما السبالانو فقيل: هما منه، وقيل: من اللحية، وعليه فقيل: لا بأس بتركهما، وقيل: يكره؛ لما فيه من التشبه بالأعاجم وأهل الكتاب، وهذا أولى بالصواب، وتمامه في حاشية نوح ''.(2/550)

فتح الباری میں ہے:

''وقال القرطبي: وقص الشارب أن يأخذ ما طال على الشفة بحيث لا يؤذي الآكل ولا يجتمع فيه الوسخ''. (10/347)

فتاوی محمودیہ(19/425):

’’اوپر کے ہونٹ پر دونوں کناروں تک جہاں سے نچلے جبڑے کی حد شروع ہوتی ہے، یہی مونچھوں کی حد ہے ‘‘۔

شرح ریاض الصالحین لابن عثیمین میں ہے:

''الثالث: قص الشارب: وهو الشعر النابت فوق الشفة العليا وحده: الشفة كل ما طال على الشفة العليا فهو شارب''.  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143907200016

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں