بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رسول اور نبی میں فرق


سوال

رسول اور نبی کے فرق کو قرآن میں کتنی جگہ بیان فرمایاگیا ہے؟ 4, 5 حوالے آ یات کے ساتھ ذرہ بتا دیجیجے!

جواب

نبی اور  رسول  دونوں  کے ہم معنی یا مختلف المعنی ہونے میں اختلاف ہے۔ راجح یہ ہے کہ دونوں میں فرق ہے۔اور دونوں میں فرق ہونے کے بارے میں متعدد اقوال ہیں۔ (جن کی تفصیل کشف الباری ۱/ ۲۲۶ پر دیکھی جاسکتی ہے)

مشہور یہ ہے کہ ’’رسول‘‘ اس پیغمبر کو کہتے ہیں جس کو نئی کتاب اور نئی شریعت دی گئی ہو۔  اور ’’نبی‘‘ ہر پیغمبر کو کہتے ہیں، چاہے اسے نئی شریعت دی گئی ہو یا نہ دی گئی ہو اور وہ اپنے سے پہلے والےرسول کی اتباع کرتے ہوئے اس کی شریعت کی تبلیغ کرے۔
 حکیم الامت  حضرت  تھانوی رحمہ اللہ  دونوں کےفرق کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’ان دونوں  میں  عموم و خصوص من وجہ کی نسبت ہے، ’’رسول‘‘ وہ ہے جو مخاطبین کو شریعتِ جدیدہ پہنچائے، خواہ وہ شریعت خود اس رسول کے اعتبار سے بھی جدید ہو جیسے تورات وغیرہ یا صرف ان کی امت کے اعتبار سے جدید ہو جیسے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شریعت، وہ دراصل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قدیم شریعت ہی تھی، لیکن ’’قوم جرہم‘‘ جن کی طرف ان کو مبعوث فرمایا تھا، ان کو اس شریعت کا علم پہلے سے نہ تھا، حضرت اسماعیل علیہ السلام ہی کے ذریعہ ہوا۔ اس معنی کے اعتبار سے رسول کے لیے نبی ہونا ضروری نہیں، جیسے فرشتے کہ وہ رسول تو ہیں مگر نبی نہیں ہیں، یا جیسے حضرت عیسی علیہ السلام کے فرستادہ قاصد جن کو آیتِ قرآن(( اِذْ جَآءَهَا الْمُرْسَلُوْنَ))[سورۃ یٰس :13]میں رسول کہا گیا ہے، حال آں کہ وہ انبیاء نہیں تھے۔
اور نبی وہ ہے جو صاحبِ وحی ہو خواہ شریعتِ جدیدہ کی تبلیغ کرے یا شریعتِ قدیمہ کی، جیسے اکثر انبیاءِ بنی اسرائیل شریعتِموسویہ کی تبلیغ کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایک اعتبار سے لفظِ رسول نبی سے عام ہے اور دوسرے اعتبار سے لفظِ نبی بہ نسبت رسول کے عام ہے، جس جگہ یہ دونوں لفظ ایک ساتھ استعمال کیےگئے جیسا کہ  سورۃ مریم میں(( رَسُوْلاً نَّبِیًّا ))[ايت 54] آیا ہے، وہاں تو کوئی اشکال نہیں کہ خاص اور عام دونوں جمع ہو سکتے ہیں، کوئی تضاد نہیں، لیکن جس جگہ یہ دو لفظ باہم متقابل آئے ہیں جیسے ((وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِيٍّ ))[سورۃ الحج :52] میں تو اس جگہ  مقام کے قرینہ کی وجہ سے  لفظِ ِنبی کو خاص اس شخص کے معنی میں لیا جائے گا جو شریعتِ سابقہ کی تبلیغ کرتا ہے‘‘۔ (بیان القرآن، ۱/۶۴۸  مکتبہ رحمانیہ، لاھور)

حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی رحمہ اللہ نے ’’ترجما ن السنہ‘‘(عربی اردو ۳/ ۴۲۰ مکتبہ رحمانیہ، لاھور) میں حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہکے حوالے سے اسی طرح نقل کیاہے۔

كشاف اصطلاحات الفنون والعلوم (1/ 860):
’’ فالرّسول بالفتح إمّا مرادف للنبي، وهو إنسان بعثه الله تعالى بشريعة سواء أمر بتبليغها أم لا، وإليه ذهب جماعة. وإمّا أخصّ منه كما ذهب إليه جماعة أخرى‘‘.

قرآن مجید میں دونوں کے درمیان فرق کو بیان کرنے کے لیے درج ذیل آیات آئی ہیں:

۱۔ وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِيٍّ اِلَّآ اِذَا تَمَنّٰی.[سورة الحج :52]

۲۔ مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ. [سورة الاحزاب: 40] فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200119

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں