بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ذبح کرکے ایصال ثواب کرنا


سوال

 کیا بھینس، گاۓ وغیرہ ذبح کرکے ان کا ثواب اپنے مردے کو بخش سکتے ہیں؟ ہمارے گاؤں میں ایک مولوی صاحب ایسا کرنے سے منع کرتے ہیں اور جائز بھی نہیں سمجھتے!

جواب

جو لوگ اس دنیا سے رخصت ہو جاتے  ہیں ان کو   کسی بھی قسم کے نیک اعمال ہدیہ کیے جا سکتے ہیں، خواہ پڑھ کربخشا جائے یا خیرات اور حسنات بخشے جائیں، قربانی،عقیہ اور صدقہ بھی ایک  نیک عمل  ہے۔  لہٰذا اللہ تعالیٰ کے نام پر جانور ذبح کرکے اس کا گوشت صدقہ کرنا ایک مستقل ثواب کا کام اور  تقرب ہے، اس کا ثواب  مردے کو ہدیہ کیا جاسکتاہے ۔

اعمال کا ایصالِ ثواب  کئی صحیح احادیث سے ثابت ہے:

حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: میری والدہ کا انتقال ہو گیا ہے، ان کے لیے کیا  صدقہ افضل ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: پانی،  انہوں نے ایک کنواں کھدوایا، اور فرمایا کہ یہ سعد کی والدہ کے لیے ہے۔

مشكاة المصابيح (1/ 597):

’’وعن سعد بن عبادة قال: يا رسول الله إن أم سعد ماتت، فأي الصدقة أفضل؟ قال: «الماء» . فحفر بئراً وقال: هذه لأم سعد. رواه أبو داود والنسائي‘‘.

اس حدیث میں  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پانی کے صدقہ کا ثواب پہنچانے کا امر فرمایا، معلوم ہواکہ صدقے کا ثواب میت کو پہنچتاہے۔

سنن ابوداود کی روایت ہے کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دو مینڈھے قربان کیے، اور فرمایا  :مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے قربانی کی وصیت فرمائی تھی، یہ میں ان کی جانب سے قربانی کر رہا ہوں۔ (۲/ ۳۸۵)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی علیہ السلام سے پوچھا : میرے والد کا انتقال ہوگیا ہے اور انہوں نے اپنے پیچھے مال چھوڑا ہے، لیکن کوئی وصیت نہیں کی۔ اگر میں ان کی جانب سے صدقہ خیرات کردوں، کیا ان کے گناہوں کے لیے معافی کا ذریعہ ہوجائے گا؟ فرمایا: ہاں! تمہارے صدقات سے ان کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔

صحيح مسلم (3/ 1254):

’’عن أبي هريرة، أن رجلاً قال للنبي صلى الله عليه وسلم: إن أبي مات وترك مالاً، ولم يوص، فهل يكفر عنه أن أتصدق عنه؟ قال: «نعم»‘‘.

معلوم ہوا کہ ایصالِ ثواب کا میت کو فائدہ ہوتا ہے۔

البتہ اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہ قربانی کا عمل اللہ تعالی کی رضا کے لیے ہو اور پھر اس کا ثواب  میت کو پہنچایا جائے، نہ یہ کہ قربانی ہی اس مردے کی نیت سے کی  جائے، ورنہ تو گناہ بھی ہوگا اور جانور بھی حرام ہوگا۔ نیز یہ بھی واضح رہے کہ نفسِ ذبح مستقل تقرب نہیں ہے، قربانی یا عقیقے کے لیے جانور ذبح کرنے یا صدقہ کی نیت سے ذبح کرنے سے یہ تقرب بنتا ہے۔  لہٰذا ممکن ہے کہ مذکورہ مولوی صاحب کچھ قیودات کی وجہ سے جانور ذبح کرکے ایصالِ ثواب سے منع کرتے ہوں، بہرحال جب تک ان کی رائے اور کہے ہوئے الفاظ بعینہ معلوم نہیں ہوجاتے اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200679

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں