بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ذاتی گھر خریدنے کے لیے بینک سے قرضہ لینے کا حکم


سوال

میں کرائے کے فلیٹ میں 14,000روپے ماہانہ پہ رہتا ہوں۔ جو رقم جمع کی ہوئی ہے اس میں گھر خریدنا ممکن نہیں۔ ہر سال کابڑھتاہوا کرایہ اور کمیشن کا بوجھ الگ۔آمدنی کم ہے اور اخراجات زیادہ،بچت بالکل بھی نہیں، ان حالات میں:

1: کیا میں بینک سے ادھارلے کر یہ کرایہ قسط کے طور پہ ادا کر دوں اور اپنی چھت کا مالک بن جاؤں؟

2: اگر ہاں تو پھر کون سا بینک یامالیاتی ادارہ؟

3: اور اس کی کون سی سروس کو حاصل کروں؟ ایک رفیقِ کارسے معلوم ہوا ہے یہ "مشارکہ" کہلاتا ہے۔

4: بینک اسلامی کا "ہوم فائننس"؟

5:  یا اس حوالے سے کوئی اور رائے؟ براہِ مہربانی راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

مروجہ سودی بینک جو مختلف کاموں کے لیے قرضہ دیتے ہیں وہ سودی قرضہ ہوتا ہے،   جس طرح سودی قرضہ دینا حرام ہے اسی طرح سودی قرضہ لینا بھی حرام ہے، اور حدیث شریف میں سود لینے اور دینے والے پر لعنت وارد ہوئی ہے، اس لیے آپ کو کوشش کرنی چاہیے کہ اپنا ذاتی گھر خریدنے کے لیے سودی قرضہ لینے کے بجائے کوئی دوسرا  جائز متبادل راستہ (مثلاً غیر سودی قرضہ ) اختیار کریں، اور جب تک غیر سودی قرضہ نہ مل سکے اس وقت تک کرائے کے مکان میں ہی گزارا  کرنے کی کوشش کریں،  سودی قرض لینے کی گنجائش اسی وقت ہوسکتی ہے جب اضطراری حالات پیدا ہوجائیں کہ سودی قرض لیے بغیر زندگی گزارنا ہی مشکل ہو ،آپ کی ضرورت کس حد تک ہے آپ خود سوچ لیں! اگرایسی ضرورت نہیں ہے، تو سود پر قرض لینے سے مستحقِ لعنت ہوں گے؛ لہٰذا آپ اپنی ضرورت کا اندازا خود لگائیں کہ آپ سودی قرض لے کر اپنی ضرورت پوری کرلینے سے اس لعنت سے بچ سکتے ہیں کہ نہیں!  بظاھر آپ کی حالت اضطراری نہیں ہے؛  اس لیے  آپ کے لیے بینک سے سودی قرضہ لینا درست نہیں ہے ۔

جہاں تک مروجہ اسلامی بینکوں کی بات ہے تو  ان کے بارے میں ملک کے جمہور علمائے کرام اور مقتدر مفتیان عظام کا فتوی یہ ہے کہ ان کے معاملات مکمل طور  پر شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہیں،اس لیے  کسی بھی مروجہ اسلامی بینک سے "ہوم  فائننس"  کی مد میں رقم لینا جائز نہیں ہے، کیوں کہ اس عقد میں بھی متعدد شرعی اصولوں کی خلاف ورزی لازم آتی ہے، نیز ہمارے علم میں کوئی بھی ایسا مالیاتی ادارہ نہیں ہے جو تمام شرعی اصولوں کی رعایت رکھتے ہوئے غیر سودی قرضہ فراہم کرتا ہو۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه»، وقال: «هم سواء»". (صحیح مسلم، باب لعن آکل الربوٰ و موکلہ، ج:۳ ؍ ۱۲۱۹ ، ط:داراحیاءالتراث العربی)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (6/ 137):

"وفي القنية من الكراهية يجوز للمحتاج الاستقراض بالربح اهـ".

الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 78):

"السادسة: الحاجة تنزل منزلة الضرورة، عامةً كانت أو خاصةً ...وفي القنية والبغية: يجوز للمحتاج الاستقراض بالربح (انتهى)".

کفایت المفتی میں ہے:

"سود پر روپیہ قرض لینا جائز نہیں الا یہ کہ اضطراری حالت ہوجائے"۔ محمد کفایت اللہ کان اﷲ لہ ،دہلی (کفایت المفتی، کتاب الربوٰ، ج:۸ ؍ ۱۰۶ )

فتاوی محمودیہ (ج:۱۶ ؍ ۳۰۲ ) میں ہے:

’’سود لینا اور سود  دینا حرام ہے، اگر گزارا  کی کوئی صورت  نہ ہو تو محتاج کے لیے بقدرِ ضرورت سودی قرض لینے کی گنجائش ہے۔‘‘

فتاوی محمودیہ (ج:۱۶ ؍ ۳۰۵ ) میں ہے:

’’سود دینا حرام ہے، ایسے شخص پر حدیث شریف میں لعنت آئی ہے، حرام کا ارتکاب اضطرار کی حالت میں معاف ہے، پس اگر جان کا قوی خطرہ ہے یا عزت کا قوی خطرہ ہے، نیز اور کوئی صورت اس سے بچنے کی نہیں، مثلا: جائے داد فروخت ہوسکتی ہے، نہ روپیہ بغیر سود کے مل سکتا ہے تو ایسی حالت میں زید شرعاً معذور ہے۔ اور اگر ایسی حالت نہیں، بلکہ کسی اور دنیوی کاروبار کے لیے ضرورت ہے یا روپیہ بغیر سود کے مل سکتا ہے یا جائیداد فروخت ہوسکتی ہے تو پھر سود پر قرضہ لینا جائز نہیں، کبیرہ گناہ ہے۔ ‘‘ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201309

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں