بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دس ذی الحجہ کو صبح صادق سے پہلے مزدلفہ سے منیٰ روانہ ہونے کا حکم


سوال

اس سال عرفات میں شدید زحام کی وجہ سے سارے راستے بند تھے،ہم عرفات سے مزدلفہ کو تقریباً چھے گھنٹے میں پہنچے، لیکن کچھ دیر وہاں رہنے کے بعد یعنی صبح صادق سے پہلے منی چلے گئے۔ کیا اب دم واجب ہے یا نہیں؟ اگر واجب ہے تو اب تو حج کے دن ختم ہو گئے، اب کیا کیا جائے ؟

جواب

"حج" کے دوران مزدلفہ میں وقوف کرنا  واجب ہے اور مزدلفہ کے وقوف کا اصل (واجب) وقت ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کی صبح صادق سے سورج طلوع ہونے کے درمیان ہے،  اس پورے وقت کے دوران ایک لمحہ کے لیے بھی اگر مزدلفہ میں وقوف کرلیا تو واجب ادا ہوجائے گا، اور سنت یہ ہے کہ یہ پورا وقت مزدلفہ میں وقوف کرے اور اچھی طرح روشنی ہونے کے بعد سورج طلوع ہونے سے کچھ دیر پہلے  منیٰ روانہ ہوجائے۔

اگر حاجی عرفات سے رات کے وقت مزدلفہ پہنچنے کے بعد کچھ دیر رک کر صبح صادق سے پہلے ہی منیٰ روانہ ہو جائے  تو  واجب (وقوفِ مزدلفہ) ترک کرنے کی وجہ سے اس پر دم دینا لازم ہوجائے گا، اور یہ دم حدودِ حرم میں  دینا لازم ہوگا۔ مریض، زیادہ ضعیف اور خواتین اگر واقعی عذر کی وجہ سے مزدلفہ میں وقوف نہ کرسکیں اور صبح صادق سے پہلے ہی منیٰ روانہ ہوجائیں تو ان کے لیے یہ جائز ہے اور اس عذر کی وجہ سے واجب (وقوفِ مزدلفہ ) چھوڑنے کی بنا پر ان پر دم دینا بھی لازم نہیں ہوگا۔

جو لوگ صبح صادق ہونے سے پہلے ہی مزدلفہ سے منی آگئے تھے اگر وہ مذکورہ عذر کی وجہ سے منی آئے تو ان پر بوجہ عذر دم واجب نہیں ہوگا، اور اگر صرف رش کی وجہ سے انہوں نے وقوفِ مزدلفہ چھوڑ دیا تو ان پر دم لازم ہوگا۔ اور اب حج کے ایام گزرنے کے بعد دم ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی شخص کے ذریعے حدودِ حرم کے اندر ایک بکرا یا بکری ذبح کروادی جائے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 511):

"(وصلى الفجر بغلس)؛ لأجل الوقوف، (ثم وقف) بمزدلفة، ووقته من طلوع الفجر إلى طلوع الشمس، ولو ماراً كما في عرفة، لكن لو تركه بعذر كزحمة بمزدلفة لا شيء عليه.

 (قوله: وصلى الفجر بغلس) أي ظلمة في أول وقتها، ولا يسن ذلك عندنا إلا هنا، وكذا يوم عرفة في منى على ما مر عن الخانية، وقدمنا أن الأكثر على خلافه، (قوله: لأجل الوقوف) أي لأجل امتداده.

مطلب في الوقوف بمزدلفة

(قوله: ثم وقف) هذا الوقوف واجب عندنا لا سنة، والبيتوتة بمزدلفة سنة مؤكدة إلى الفجر لا واجبة، خلافاً للشافعي فيهما، كما في اللباب وشرحه، (قوله: ووقته إلخ) أي وقت جوازه. قال في اللباب: وأول وقته طلوع الفجر الثاني من يوم النحر، وآخره طلوع الشمس منه، فمن وقف بها قبل طلوع الفجر أو بعد طلوع الشمس لا يعتد به، وقدر الواجب منه ساعة ولو لطيفة، وقدر السنة امتداد الوقوف إلى الإسفار جداً، وأما ركنه: فكينونته بمزدلفة سواء كان بفعل نفسه أو فعل غيره، بأن يكون محمولاً بأمره أو بغير أمره، وهو نائم أو مغمى عليه أو مجنون أو سكران نواه أو لم ينو علم بها أو لم يعلم، لباب، (قوله: كزحمة) عبارة اللباب: إلا إذا كان لعلة أو ضعف، أو يكون امرأة تخاف الزحام فلا شيء عليه اهـ لكن قال في البحر: ولم يقيد في المحيط خوف الزحام بالمرأة بل أطلقه فشمل الرجل. اهـ.

قلت: وهو شامل لخوف الزحمة عند الرمي، فمقتضاه أنه لو دفع ليلاً ليرمي قبل دفع الناس وزحمتهم لا شيء عليه، لكن لا شك أن الزحمة عند الرمي وفي الطريق قبل الوصول إليه أمر محقق في زماننا، فيلزم منه سقوط واجب الوقوف بمزدلفة، فالأولى تقييد خوف الزحمة بالمرأة، ويحمل إطلاق المحيط عليه؛ لكون ذلك عذراً ظاهراً في حقها يسقط به الواجب بخلاف الرجل، أو يحمل على ما إذا خاف الزحمة لنحو مرض، ولذا قال في السراج: إلا إذا كانت به علة أو مرض أو ضعف فخاف الزحام فدفع ليلاً فلا شيء عليه اهـ لكن قد يقال: إن غيره من مناسك الحج لا يخلو من الزحمة، وقد صرحوا بأنه لو أفاض من عرفات لخوف الزحام وجاوز حدودها قبل الغروب لزمه دم ما لم يعد قبله، وكذا لو ند بعيره فتبعه كما صرح به في الفتح، على أنه يمكنه الاحتراز عن الزحمة بالوقوف بعد الفجر لحظة فيحصل الواجب ويدفع قبل دفع الناس، وفيه ترك مد الوقوف المسنون لخوف الزحمة، وهو أسهل من ترك الواجب الذي قيل بأنه ركن. وقد يجاب بأن خوف الزحام لنحو عجز ومرض إنما جعلوه عذراً هنا لحديث «أنه صلى الله عليه وسلم قدم ضعفة أهله بليل»، ولم يجعل عذراً في عرفات؛ لما فيه من إظهار مخالفة المشركين؛ فإنهم كانوا يدفعون قبل الغروب، فليتأمل.

(قوله: لا شيء عليه) وكذا كل واجب إذا تركه بعذر لا شيء عليه، كما في البحر: أي بخلاف فعل المحظور لعذر كلبس المخيط ونحوه، فإن العذر لا يسقط الدم، كما سيأتي في الجنايات، وبه سقط ما أورده في الشرنبلالية بقوله: لكن يرد عليه ما نص الشارع بقوله: {فمن كان منكم مريضاً أو به أذىً من رأسه ففدية} [البقرة: 196]- اهـ نعم يرد ما قدمناه آنفا عن الفتح من أنه: لو جاوز عرفات قبل الغروب لند بعيره أو لخوف الزحمة لزمه دم، وقد يجاب بما سيأتي عن شرح اللباب في الجنايات عند قول اللباب، ولوفاته الوقوف بمزدلفة بإحصار فعليه دم من أن هذا عذر من جانب المخلوق فلا يؤثر. اهـ. لكن يرد عليه جعلهم خوف الزحمة هنا عذراً في ترك الوقوف بمزدلفة وعلمت جوابه، فتأمل".


فتوی نمبر : 143909202052

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں