بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خاندانی تعلقات کی خاطر حرام آمدنی والے کی دعوت میں شرکت کرنا


سوال

 میری بھانجی کی شادی ہے، سارے گھر والے مدعو ہیں، اور جانا بھی ضروری ہے، میرے بہنوئی کی ساری کما ئی بینک کی ملازمت سے ہے کہ وہ بینک مینیجر ہے۔ عام زندگی کے معاملات میں تو  میں اور میرے بچے اُن کے گھر کھانا پینا نہیں کرتے اور ایسا کوئی خاص مسئلہ بھی ابھی تک نہیں آیا ہے۔ کیوں کہ میری بہن کو معلوم ہے کہ ہم ان ( اس کے شوہر)کے گھر نہ کھاتے اور نہ پیتے ہیں۔ لیکن اب تو  مسئلہ اجتماعی ہے۔ اور بہن نے کہا ہے کہ اگر کھانا پینا نہیں ہے تو آئیں بھی نہیں، پھر سب لوگ باتیں کرتے ہیں۔   اب اگر ہم نہیں جائیں گے تو امی(ماں) بھی ناراض ہوگی اور بہن بھی اور اس کا شوہر بھی، اور اگر جائیں گےتو کھانا وغیرہ کھا نا پڑے گا۔   ان کی آمدن میں تو کچھ بھی  بینک کے علاوہ نہیں ہے، لیکن میں نے اور میرے بھائیوں نے شادی میں مدد یا تحفۃً 85000 روپے دیے ہیں۔ جو کہ الحمداللہ 100فیصد حلال کی کمائی سےہیں۔ مفتیان حضرات سے التما س ہے کہ مسئلےکا شرعی حل بتا دیں۔ شادی 12 اور13 اپریل2019 کو ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کے بہنوئی کی آمدنی صرف حرام ہی کی ہے، اور کوئی حلال آمدنی نہیں ہے، اور وہ اسی حرام آمدنی سے دعوت کررہے اور آپ کو معلوم بھی ہے تو آپ کے لیے اس دعوت کا کھانا، کھانا جائز نہیں ہے۔ البتہ خاندانی تعلقات، اور صلہ رحمی  کی بنا پر تقریب میں شرکت کرسکتے ہیں، بشرطیکہ کوئی اور شرعی مانع موجود نہ ہو۔

نیز آپ کے بہنوئی کا حرام کی رقم سے دعوت کرنا بھی جائز نہیں ہے، انہیں چاہیے کہ وہ کسی حلال رقم کا بندوبست کریں۔

خاندانی تعلقات برقرار رکھنے اور دوسرے سب لوگوں کو حرام مال کھلانے سے بچانے کے لیے آپ حضرات آپس میں مل کر یہ ترتیب بنالیں کہ شادی کے کھانے کے اخراجات اپنے ذمے لے لیں اور آپ لوگوں نے  بہن کو شادی کی مد میں جو  85000 روپے دیے ہیں، اسی طرح کچھ اور لوگوں نے جو اس طرح تحفہ اور ہدیہ میں رقم دی ہے، اس رقم سے وہ دعوت کا کھانا بنالیں، ایسی صورت میں چوں کہ کھانا حلال رقم سے بنا ہوگا تو آپ کے لیے اور دیگر خاندان والوں کے لیےبھی اس کا کھانا درست ہوگا، اس سے  آپ کا بہنوئی بھی لوگوں کو حرام کھلانے کے گناہ سے بچ جائے گا، اور خاندان کے باہمی تعلقات بھی بہتر رہیں گے۔

نیز بہنوئی کو سمجھاتے بھی رہیں اور انہیں شرعی مسئلہ سے آگاہ کرتے رہیں، کہ وہ جلد از جلد اس حرام کمائی سے اپنی جان چھڑالے، حرام مال کی وجہ سے دنیا میں بھی سکون نصیب نہیں ہوتا اور آخرت میں بھی پریشانی کا سامنا ہوتا ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"أهدى إلى رجل شيئاً أو أضافه إن كان غالب ماله من الحلال فلا بأس إلا أن يعلم بأنه حرام، فإن كان الغالب هو الحرام ينبغي أن لايقبل الهدية، ولايأكل الطعام إلا أن يخبره بأنه حلال ورثته أو استقرضته من رجل، كذا في الينابيع".(5 / 342، الباب الثانی  عشر فی الھدایا والضیافات، ط: رشیدیہ)

وفیہ أیضاً:

"آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لا يقبل، ولايأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالاً لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط". (5 / 343، الباب الثانی  عشر فی الھدایا والضیافات، ط: رشیدیہ)(مجمع الانھر، (2/529) کتاب الکراہیۃ، ط: دار احیاء التراث العربی)  فقط واللہ اعلم

حرام آمدنی والے شخص کے تحفہ اور دعوت کی مختلف صورتوں سے متعلق درج ذیل لنک پر جامعہ کا فتوی ملاحظہ فرمائیں:

حرام کمانے والے شخص کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانا / حرام آمدنی والے کے کھانا کھانے یا دعوت قبول کرنے کی تفصیل


فتوی نمبر : 144008200058

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں