بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حکومت سے کرایہ الاؤنس کے مسائل


سوال

ہمیں ایک اہم مسئلہ درپیش ہے، امید ہے کہ علماءِ  کرام اس پر غور فرماکر جلدی اس کا حل مدلل پیش فرمائیں گے. سوال یہ ہے کہ بعض ملازمین کے مکان کا کرایہ سکیل وائز مقرر کردیا جاتا ہے. لیکن اس سے پہلے مکان کا حدودِ اربعہ اور اس کی سہولیات وغیرہ بھی درج کرائی جاتی ہیں، سب کچھ طے ہونے کے بعد، یہ کرایہ ڈائریکٹ مالک مکان کو آناشروع ہوجاتاہے.

 1.اب بعض ملازمین یہ کرتے ہیں کہ وہ مقررہ کرایہ سے کم کرائے والا مکان تلاش کرتے ہیں اورمالک مکان کے ساتھ طے کرلیتے ہیں کہ وہ بقیہ کرایہ ملازم کو واپس کرے گا.

2.بعض ملازمین کو ویسے ہی سستا اور اچھا مکان مل جاتا ہے.اس صورت میں بھی کرایہ بچتا ہے اور ملازم بقیہ کرایہ مالک مکان سے واپس لینے کے لیے پہلے ہی طے کرلیتا ہے.

3.اور کچھ ملازمین اپنے مکان میں رہتے ہیں، مگر دفتر سے اس کا بھی کرایہ وصول کرتے ہیں.

4.اور خوفِ خدا رکھنے والے ملازمین کم کرائے والا مکان ملنے کی صورت میں آفس سے اپنا کرایہ کم کرانے کی درخواست کرتے ہیں، مقامی آفس سے فائل تیار کرکے ہیڈ آفس بھیجی جاتی ہے.لیکن اس سے ایک تو دوسرے ملازمین کے لیے مسائل بن سکتے ہیں اور دوسرا خود اسی ملازم کے لیے بھی، بعد میں کرایہ بڑھنے کی صورت میں پریشانی ہوسکتی ہے، اس لیے کہ بعض دفعہ کئی سال تک ملازمین کے لیے حکومت کی جانب سے کرایہ نہیں بڑھایاجاتا. اس لیے اگر کوئی اپنا کرایہ کم کرانا چاہے تو نہیں کیاجاتا. ایک ملازم نے اسی طرح کیا تو ہیڈ آفس سےفون آیا کہ کیاآپ نے اپنا کرایہ لکھنے میں غلطی کی ہے؟ ملازم نے کہاکوئی غلطی نہیں کی، میرے مکان کا کرایہ ہی اتناہے، لہذا میرا کرایہ کم کردیا جائے، مگر آفس سے جب فائل بن کرواپس آئی تو اس میں اتنا ہی کرایہ لکھا تھاجتنا کہ پہلے تھا. اس صورتِ حال سے یہ مسائل پوچھنے ہیں.

1.کیا ملازم اپنے کرائے سے کم کرائے والا مکان تلاش کرکے اضافی رقم مالک مکان سے واپس لے سکتاہے؟ اگر نہیں لےسکتا تواضافی رقم کدھر صرف کرے، مالک مکان خود اس لیے نہیں رکھ سکتا کہ اس کے مکان کا اتنا کرایہ نہیں ہے اور بظاہر ملازم بھی نہیں لے سکتا، ایک تو اس لیے کہ یہ ملی بھگت ہے اور دوسرا اس لیے کہ حکومت مالک مکان کو مالک بناکر دیتی ہے.

2. اپنے مکان میں رہ کر ملازم، مکان کا کرایہ وصول کرسکتا ہے؟

3.کوئی ملازم سہولیات کو نظرانداز کر کے عام سامکان لے سکتا ہے؟

جواب

مذکورہ صورت میں اگر حکومت کی طرف سے یہ طے ہے کہ  اس قدر رقم  (مثلاً 10000)  فلاں ملازم کو کرایہ الاؤنس کے طور پر ملے گی، قطع نظر اس سے  کہ اس کا کرایہ کتنا ہو، تو کم کرایے کے بعد  بچنے والی رقم  ملازم کی ملکیت ہے ، جیسے چاہے خرچ کرے۔

اگر یہ طے ہے کہ جتنا کرایہ ہوگا اتنا ہی  ملے گا تو جب  کرایہ کم تھا اور زیادہ رقم آگئی  تو یہ تمام رقم حکومت ہی کی ہے، اس کو واپس کرناضروری ہے۔ اور کم کرایہ ہوتے ہوئے حکومت کو زیادہ بتانا جھوٹ اور دھوکا ہے۔ 

اگر واپس کرنے یا کرایہ  کی ملنے والی رقم کم کرانے  میں مشکلات ہوں یا کم کروانے کی کوشش کی، لیکن پھر بھی کچھ پیسے زائد آگئے یابعد میں کرایہ بڑھ جانے کی صورت میں  حکومت سے کمی کروانے کے بعد بڑھوانا مشکل ہو تو اس کی ایک صورت یہ ممکن ہے جس قدر رقم مالک مکان کے پاس زیادہ آگئی ہے اس کا حساب رکھا جائے اور آئندہ جب کرایہ بڑھے تو یہ زائد رقم منہا کرلی جائے۔ یا کسی طریقے سے سرکار کو واپس کردی جائے۔  بہر صورت حکومتی کارندوں  کی سستی کی وجہ سے دھوکا  دے کر نقصان پہنچانا جائز نہیں۔

1- 2- اس کا جواب گزرچکا۔

3- کرایہ الاؤنس کی دوسری صورت میں اگر یہ سستے گھر میں رہے گا تو زیادہ کرایہ وصول کرنا اس کے لیے جائز نہیں ہے۔

"عن ابن مسعود رضي اللّٰه تعالیٰ عنه قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه تعالیٰ علیه وآله وسلم: من غشنا فلیس منا، والمکر، والخداع في النار". (رواه الطبراني في الکبیر والصغیر ۱؍۲۶۱، وابن حبان في صحیحه رقم: ۵۵۳۳، الترغیب والترهیب ۴۰۰ رقم ۲۷۴۲ بیروت)فقط وﷲ تعالیٰ اعلم


فتوی نمبر : 144012200689

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں