بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حق مہر ادا نہ کرنا


سوال

حق مہر ادا نہ کرنے والے کے لیے کیا وعید ہے ؟

جواب

مہرعورت کا حق ہے،جس قدر جلد اداکیاجائے زیادہ بہترہے،بلاوجہ حقِ مہر کی ادائیگی میں تاخیرنہیں کرنی چاہیے،نیز عورتوں کے مہرادا کرنایاجبراً ان سے معاف کروادینادونوں ہی  ظلم اور ناانصافی کے کام ہیں۔کسی دوسرے کے مال کو غصب کرنا شریعت میں بڑاجرم اور گناہ کبیرہ ہے۔قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں خوش دلی سے عورتوں کے مہر اداکرنے کا حکم دیاگیاہے۔

قرآن کریم میں ارشادباری تعالیٰ ہے:

''اوردے ڈالوعورتوں کواُن کے مہرخوشی سے ''۔(النساء:4)

اس آیتِ کریمہ میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ مہر عورت کاحق ہے اور شوہرپراس کی ادائیگی واجب ہے،جس طرح دیگرحقوقِ واجبہ کوخوش دلی کے ساتھ اداکرناضروری ہے ، اسی طرح مہرکوبھی خوش دلی کے ساتھ اداکرنالازم ہے۔حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ اس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

''مطلب یہ ہے کہ جبر واکراہ اور دباؤ کے ذریعہ معافی حاصل کرنا تو کوئی چیز نہیں، اس سے کچھ معاف نہیں ہوتا، لیکن اگر وہ بالکل اپنے اختیار اور رضامندی سے کوئی حصہ مہر کا معاف کر دیں یا لینے کے بعد تمہیں واپس کر دیں تو وہ تمہارے لیے جائز ہے اور درست ہے۔یہ مظالم مذکورہ زمانہ جاہلیت میں بہت زیادہ تھے جن کا ازالہ قرآن حکیم نے اس آیت میں فرمایا، افسوس ہے کہ جاہلیت کے زمانہ کی یہ باتیں مسلمانوں میں اب بھی موجود ہیں، مختلف قبیلوں اور علاقوں میں ان مظالم میں سے کوئی نہ کوئی ظلم ضرور پایا جاتا ہے، ان سب مظالم سے بچنا لازم ہے۔
آیتِ شریفہ میں جو یہ قید لگائی طیبِ نفس کی کہ خوشی سے تمہاری بیویاں اگر مہر کا کچھ حصہ تم کو دے دیں یا تم سے وصول ہی نہ کریں تو تم اس کو کھا سکتے ہو، اس میں ایک بہت بڑا راز ہے، بات یہ ہے کہ شریعت کا یہ اصول ہے کہ کسی کا ذرا سامال بھی کسی دوسرے کے لیے حلال نہیں ہے جب تک کہ طیبِ نفس سے اجازت نہ ہو، بطورِ قاعدہ کلیہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”خبردار ظلم نہ کرو اور اچھی طرح سے سمجھ لو کہ کسی شخص کا مال(دوسرے شخص کے لیے) حلال نہیں ہے جب تک کہ اس کے نفس کی خوشی سے حاصل نہ ہو ۔ “
یہ ایک عظیم اصول ہے اور اس کے ماتحت بہت سے جزئیات آ جاتے ہیں ۔دور حاضر میں چوں کہ عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ مہر ملنے والا نہیں ہے، اگر سوال کروں یا معاف نہ کروں تو بد دلی یا بدمزگی پیدا ہو گی، اس لیے بادل ناخواستہ معاف کر دیتی ہیں، اس معافی کا کوئی اعتبار نہیں، سیدی حضرت حکیم الامت قدس سرہ فرماتے تھے کہ صحیح معنی میں طیبِ نفس سے معاف کرنے کا پتا اس صورت میں چل سکتا ہے کہ مہر کی رقم بیوی کے حوالہ کر دی جائے اس کے بعد وہ اپنی خوشی سے بغیر کسی دباؤ کے دے دے ، یہی طیبِ نفس بہنوں اور بیبوں کی میراث میں بھی سمجھ لینا چاہیے۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ ماں یا باپ کے فوت ہو جانے پر لڑکے ہی پورے مال پر قابض ہو جاتے ہیں اور لڑکیوں کو حصہ نہیں دیتے، اگر کسی کو بہت دِین داری کا خیال ہوا تو بہنوں سے معافی مانگ لیتا ہے، وہ چوں کہ یہ سمجھتی ہیں کہ حصہ کسی حال میں ملنے والا نہیں، اس لیے اپنی مرضی کے خلاف معاف کرنے کو کہہ دیتی ہیں، پھر باپ کی وفات پر اس کی بیوی کا حصہ بھی نہیں دیا جاتا، خصوصاً سوتیلی ماں کو تو دیتے ہی نہیں، یہ سب حقوق دبا لینا ہے، اگر کوئی طیبِ نفس سے معاف کر دے تو معاف ہو سکتا ہے، جس کی علامت اوپر گزر چکی۔
سیدی حضرت حکیم الامت قدس سرہ نے یہ بھی فرمایا کہ اس سلسلہ میں طیبِ نفس کا ذکر ہے، طیبِ قلب نہیں فرمایا، اس لیے کہ کسی کا مال حلال ہونے کے لیے اس کے دل کی خوشی کافی نہیں، جو لوگ رشوت یا سود دیتے ہیں بہت سے ظاہری منافع سوچ کر اور عقلی طور پر آمدنی کا حساب لگا کر خرچ کر دیتے ہیں، مگر یہ خوشی معتبر نہیں، اگر نفس سے پوچھا جائے تو وہ اس خرچہ پر قطعاً راضی نہ ہو گا، اسی وجہ سے طیبِ نفس کو فیصل قرار دیا گیا''۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201624

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں