بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت خنساء رضی اللہ عنہا کے حالات


سوال

ایک صحابیہ کے بارے میں معلومات جاننی ہیں،  "حضرت خنساء" رضی اللہ عنہا۔

جواب

حضرت خنساء رضی اللہ عنہا کا نام "تماضر"  تھا، خنساء لقب ہے، قبیلہ قیس کے خاندانِ  سلیم سے ہیں۔ سلسلۂ نسب یہ ہے: خنساء بنت عمرو بن الشرید بن رباح بن ثعلبہ بن عُصَیَّۃ بن خفاف بن امریٔ القیس بن بُہثہ بن  سلیم بن منصور بن عکرمہ بن حفصہ بن قیس بن عیلان بن مضر۔ نجد کی رہنے والی تھیں۔

عام حالات: حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں جب قادسیہ (عراق) میں جنگ ہوئی تو حضرت خنساءؓ اپنے چار بیٹوں کو لے کر میدان میں آئیں اور ان کو مخاطب کرکے یہ نصیحت کی: ’’پیارے بیٹو! تم نے اسلام اور ہجرت اپنی مرضی سے اختیار کی ہے ورنہ تم اپنے ملک کو بھاری نہ تھے، اور نہ تمہارے یہاں قحط پڑا تھا باوجود اس کے تم اپنی بوڑھی ماں کو یہاں لائے اور فارس کے آگے ڈال دیا۔ خدا کی قسم! تم ایک ماں اور باپ کی اولاد ہو، میں نے نہ تمہارے باپ سے خیانت کی اور نہ تمہارے ماموں کو رسوا کیا، تم جانتے ہو کہ دنیا فانی ہے اور کفار سے جہاد کرنے میں بڑا ثواب ہے، خدا تعالیٰ فرماتا ہے: یٰااَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا  اس بنا پر صبح اُٹھ کر لڑنے کی تیاری کرو اور آخر وقت تک لڑو۔ چناں چہ بیٹوں نے ایک ساتھ باگیں اُٹھائیں اور نہایت جوش میں رجز پڑھتے ہوئے بڑھے اور شہید ہوئے، حضرت خنساءؓ کو خبر ہوئی تو خدا کا شکر ادا کیا۔ حضرت عمرؓ ان لڑکوں کو ۲۰۰ درہم سالانہ وظیفہ عطا کرتے تھے، ان کی شہادت کے بعد یہ رقم حضرت خنساءؓ کو ملتی رہی۔

اولاد: چار لڑکے تھے جو قادسیہ میں شہید ہوئے ان کے نام یہ ہیں: ’’عبد اللہ، ابو شجرہ (پہلے شوہر سے) زید، معاویہ (دوسرے شوہر سے)ؓ۔‘‘

فضل و کمال: اقسامِ سخن میں سے مرثیہ میں حضرت خنساءؓ اپنا جواب نہیں رکھتی تھیں۔
"ناقدانِ سخن کا فیصلہ ہے کہ خنساءؓ کے برابر کوئی عورت شاعر نہیں پیدا ہوئی۔‘‘

وفات: اس واقعہ کے دس برس کے بعد حضرت خنساءؓ نے وفات پائی، سالِ وفات ۲۴ ہجری ہے۔

أسد الغابة (3/ 342، بترقيم الشاملة آليا):
"خنساء بِنْت عَمْرو
خنساء بِنْت عَمْرو بن الشريد بن رباح بن ثعلبة بن عُصَيّة بن خُفاف بن امرئ القَيْس بن بُهثة بن سُلَيم السَّلَمية الشاعرة. كذا نسبها أبو عُمر.
وقال هشام بن الكلبي: صخر ومُعاوِيَة وخنساء. واسمها تُماضَر: بنو عَمْرو بن الشريد بن رباح بن يقظة بن عصية بن خفاف بن امرئ القَيْس بن سليم.
قال: ولها يقول دُرَيد بن الصِّمة:
حَيّوا تُماضِرَ واربعوا صَحْبي
قدَمَت رسول الله صلّى الله عليه وسلّم مع قومها فأسلمت معهم، فذكروا أن رسول الله صلّى الله عليه وسلّم كان يستنشدها ويعجبه شعرها، فكانت تنشده ويقول: " هيه يا خُناس". قالوا: وكانت تقول في أول أمرها البيتين والثلاثة، حتى قُتل أخوها مُعاوِيَة وهو شقيقها قتله هاشم وزيد المُريِّان، وقتل صخر وهو أخوها لأبيها، وكان أحبهما إليها، وكان حليماً جواداً محبوباً في العشيرة، طعنه أبو ثور الأسدي، فمرض منها قريباً من سنة، ثم مات. فلما مات أكثرت أخته من المراثي، فأجادت من قولها في صخر أخيها:
أعَيْنَيَّ جودا ولا تجْمُدا ... ألا تبكيانِ لصخرِ النّدى؟
ألا تبكيان الجريءَ الجميلَ؟ ... ألا تبكيان الفتى السَّيّدا؟
طويلَ العِماد عظيمَ الرَّما ... دِ سادَ عشيرتَهُ أمردا
ولها فيه:
أشَمُّ أبْلَجُ يأتمُّ الهُداةُ بهِ ... كأنه علمٌ في رأسه نارُ
وإنَّ صخراً لمولانا وسيّدُنا ... وإنّ صخراً إذا نشتو لنَحّارُ
وأجمع أهل العلم والشعر أنه لم تكن امْرَأَة قبلها ولا بعدها أشعر منها.
وذكر الزبير بن بكار، عن مُحَمَّد بن الحسن المخزومي، عن عَبْد الرَّحْمَن بن عَبْد الله عن أبيه عن أبي وَجْزة، عن أبيه: أن الخنساء شهدت القادسية ومعها أربعة بنين لها، فقالت لهم أول الليل: يا بنيّ، إنكم أسلمتم وهاجرتم مختارين، والله الذي لا إله غيره إنكم لبنو رجل واحد، كما أنكم بنو امْرَأَة واحدة، ما خنت أباكم ولا فضحت خالكم، ولا هجّنت حسبكم، ولا غيّرت نسبكم. وقد تعلمون ما أعد الله للمسلمين من الثواب الجزيل في حرب الكافرين. واعلموا أن الدار الباقية خير من الدار الفانية، يقول الله عَزَّ وجَلّ: " يا أيها الذي أمنوا اصبروا وصابروا ورابطوا، واتقوا الله لعلكم تفلحون " . فإذا أصبحتم غداً إن شاء الله سالمين فاغدوا إلى قتال عدوكم مستبصرين، وبالله على أعدائه مستنصرين. وإذا رأيتم الحرب قد شمّرت عن ساقها، واضطرمت لظى على سِياقها، وجُلِّلت ناراً على أرواقها، فتيمّموا وطيسها، وجالدوا رئيسها عند احتدام خميسها، تظفروا بالغُنْم والكرامة، في دار الخلد والمقامة. فخرج بنوها قابلين لنُصْحها، وتقدموا فقاتلوا وهم يرتجزون، وأبلوا بلاءً حسناً، واستشهدوا رحمهم الله. فلما بلغها الخبر قالت: الحمد لله الذي شرفني بقتلهم، وأرجو من ربي أن يجمعني بهم في مُستقَرّ رحمته.
وكان عُمر بن الخطاب رضي الله عنه يعطي الخنساء أرزاق أولادها الأربعة، لكل واحد مائة درهم، حتى قُبِض رضي الله عنه.
أخرجها أبو عُمر". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200722

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں