بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حج کے مہینوں میں عمرہ ادا کرنا


سوال

کیا حج کے مہینوں میں صرف عمرہ ادا کرسکتے ہیں؟

جواب

آفاقی (میقات سے باہر رہنے والے شخص ) کے لیے حج کے مہینوں میں  عمرہ ادا کرنا جائز ہے، خواہ حج کا ارادہ ہو یا نہ ہو۔

اور مکہ والے اور جو مکہ والوں کے حکم میں ہیں (یعنی میقات کے اندر یا میقات پر رہنے والے لوگ یا جو شخص اشہر حج سے پہلے  سے مکہ مکرمہ میں مقیم ہے) اگر ان لوگوں کا اسی سال حج کرنے کا ارادہ ہے تو  اشہر حج (شوال، ذی قعدہ، اور ذی الحجہ کے دس دن) میں ان کے لیے عمرہ کرنا مکروہ ہے، اور اگر اس سال حج کرنے کا ارادہ نہیں ہے تو حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا مکروہ نہیں ہے۔(ارشادالساری ص156،غنیۃ الناسک 199)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 473):
"يزاد على الأيام الخمسة ما في اللباب وغيره من كراهة فعلها في أشهر الحج لأهل مكة، ومن بمعناهم أي من المقيمين، ومن في داخل الميقات؛ لأن الغالب عليهم أن يحجوا في سنتهم، فيكونوا متمتعين، وهم عن التمتع ممنوعون، وإلا فلا منع للمكي عن العمرة المفردة في أشهر الحج، إذا لم يحج في تلك السنة، ومن خالف فعليه البيان شرح اللباب، ومثله في البحر، وهو رد على ما اختاره في الفتح من كراهتها للمكي، وإن لم يحج. ونقل عن القاضي عيد في شرح المنسك: أن ما في الفتح قال العلامة قاسم: إنه ليس بمذهب لعلمائنا ولا للأئمة الأربعة، ولا خلاف في عدم كراهتها لأهل مكة. اهـ.
قلت: وسيأتي تمام الكلام عليه في باب التمتع إن شاء الله تعالى هذا وما نقله ح عن الشرنبلالية من تقييده كراهة العمرة في الأيام الخمسة بقوله: أي في حق المحرم أو مريد الحج يقتضي أنه لايكره في حق غيرهما، ولم أر من صرح به، فليراجع". 
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201344

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں