بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حج پر جانے سے پہلے دعوت


سوال

حج پر جانے سے پہلے دعوت کرنی چاہیے؟ یا جو حج کر کے آئے تو دوستوں یا رشتہ داروں  کی دعوت کرنی چاہیے؟

جواب

حج  جیسے عظیم الشان رُکن  کی ادائیگی پر اگر کوئی شخص شکریہ کے طور پر غرباء ومساکین اور اَعزّہ واحباب کو کھانا کھلائے، یا کچھ ہدیہ دے، تو شرعاً یہ درست ہے،  خود رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو جانور ذبح کرکے کھانے کا انتظام کرتے۔ لیکن ایسا کرنا نہ واجب ہے اور نہ مستقل سنت۔ بعض لوگ اس میں رِیا اور فخر کے لیے  یا رسم ہونے کی وجہ سے کھلاتے ہیں، اور ایسا لازم اور ضروری تصور کیا جاتا ہے، حتی کہ اگر اپنے پاس پیسہ نہ ہو تو قرض لے کر کھلایا جاتا ہے، ایسی صورت میں شریعت کی طرف سے اِس کی اجازت نہیں ہے، لہٰذا اِس طرح کھانا کھلانے اور کھانا کھانے سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔

اسی طرح حج پر جانے سے پہلے اس قسم کی دعوت کا اہتمام کرنا  اور اس کو لازم سمجھنا بھی غلط ہے۔البتہ مہمان آئے ہوئے ہوں اوربلا تکلف ان کی خاطر کی جائے تو اس میں قباحت نہیں۔

صحيح البخاري (4/ 77)
" عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا قَدِمَ المَدِينَةَ، نَحَرَ جَزُورًا أَوْ بَقَرَةً»".

"عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله ﷺ: إذا لقیت الحاج فسلم علیه، وصافحه، ومره أن یستغفر لک قبل أن یدخل بیته، فإنه مغفور له". (مسند إمام أحمد بن ۲/ ۶۹، رقم: ۵۳۷۱)
"صحیح البخاري " : عن عائشة رضي اللّٰه عنها قالت : قال رسول الله صلی الله علیه وسلم : ’’من أحدث في أمرنا هذا ما لیس فیه فهو ردٌّ ‘‘. (۱/۳۷۱) کتاب الصلح ، ط: قدیمي)
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909202284

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں