بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حاتم نام رکھنا کیسا ہے؟


سوال

کیااسلام میں ’’حاتم‘‘  نام رکھنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

’’حاتم‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے ، جس کے معنی قاضی اور ایک خاص کوے کے آتے ہیں۔مذکورہ نام رکھا جاسکتاہے۔ البتہ انبیاءِ کرام علیہم السلام یاصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے اسماء گرامی میں سے کسی کو منتخب کرکے رکھنا زیادہ بہتر ہے۔

الصحاح فی اللغۃ میں ہے :

"حتم:الحَتْمُ: إحكام الأمر. والحَتْمُ: القضاء؛ والجمع الحُتومُ. قال أمية بن أبي الصلت:

عِبادُكَ يُخْطِئُونَ وأنت ربٌّ ... بكَفَّيْكَ المنايا والحُتومُ

وحَتَمْتُ عليه الشيء: أوجبت. والحاتِمُ: القاضي. والحاتِمُ: الغُرابُ الأسودُ". (1/114)

المصباح المنیر میں ہے :

"( ح ت م ) : حتم عليه الأمر حتماً من باب ضرب أوجبه جزماً وانحتم الأمر وتحتم وجب وجوباً لايمكن إسقاطه، وكانت العرب تسمي الغراب حاتماً؛ لأنه يحتم بالفراق على زعمهم أي يوجبه بنعاقه". (2/278)

المعجم الوسیط میں ہے :

"( الحاتم ) القاضي والغراب لزعمهم أنه يقضي بالفراق إذا نعب قال المرقش ( ولقد غدوت وكنت لا أغدو على واق وحاتم )". (1/155)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200645

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں