بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جمعۃ المبارک کو بلیک فرائیڈے کہنے کا حکم


سوال

پاکستان میں سال کے آخری دنوں میں کسی ایک جمعہ کے دن کو بلیک فرائیڈے کا نام دے کر آن لائن خریداری پر ڈسکاؤنٹ دیا جاتا ہے اور اس کی تشہیر بھی کی جاتی ہے۔ کیا مسلمانوں کا جمعہ کے کسی ایک دن کو بلیک فرائیڈے (کالا جمعہ) کا نام دینا جائز ہے؟ کیا اسلام میں کالا رنگ سوگ یا منحوسیت کی علامت ہے؟

جواب

جمعہ کا دن حدیث شریف کے مطابق تمام ایام کا سردار اورنہایت مبارک دن ہے،یہ دن مسلمانوں کی عبادت کے لیے مخصوص ہے،اس دن کے ادب واحترام اور تعظیم کا مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے، جمعے کو ''سیاہ دن ''کہنا(قطع نظر  اس بات کے کہ اس کی بنیاد کیاہے) جمعے کے ادب اور اس کی تعظیم کے خلاف ہے۔ گو بعض لوگوں کاکہناہے کہ تاجر حضرات سیاہ روشنائی مالی نفع لکھنے کے لیے اور سرخ روشنائی تجارتی خسارہ لکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اس دن چوں کہ نفع زیادہ ہوتا ہے؛ لہذااس مناسبت سے اس دن کو ''بلیک  ڈے'' کہاگیا۔ یا بعض لوگ کہتے ہیں کہعیسائیوں کے مذہبی تہوارکرسمس کی تیاریوں کے سلسلہ میں سڑکوں پراس دن لوگوں کے اژدہام کی بنا پر ''بلیک ڈے ''کہاجاتاہے،ان جیسی محتمل وجوہات کے باوجود اس دن کو سیاہ کہنے کی گنجائش نہیں ۔

نیز یہ کہ یہ دن [بلیک فرائیڈے]غیرمسلموں کاایک معاشرتی اور ثقافتی دن ہے اور مسلمانوں کو جس طرح غیر مسلموں کے مذہبی تہواروایام میں شریک ہونے اور انہیں رائج کرنے اجازت نہیں اسی طرح ان کی اقتدا میں ان کی معاشرت اور غیراسلامی ثقافت سے بچنے  کا حکم دیاگیاہے۔

اسلام میں کوئی دن یا رنگ سوگ اور نحوست کی علامت نہیں ہے، البتہ عرف میں جو لفظ غیر مناسب معنی میں استعمال ہو ہمیں اس کے استعمال سے روکاگیا ہے،  جب کہ  عرف میں ''سیاہ دن '' اچھے معنی میں استعمال نہیں ہوتا،   جیسے حدیث پاک میں سمجھانے کے لیے ارشاد فرمایاگیاہے :'' جب کوئی مومن گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے پھر اگر وہ اس گناہ سے توبہ کر لیتا ہے اور استغفار کرتا ہے تو اس کے  دل  سے اس نقطہ سیاہ کو صاف کر دیا جاتا ہے اور اگر زیادہ گناہ کرتا ہے تو وہ سیاہ نقطہ بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے دل پر سیاہی چھا جاتی ہے''۔یہاں جرائم اورگناہوں کے خوگر انسان کے دل کو "سیاہ دل"  قرار دیاگیاہے۔(اسی سے ملتے جلتے اور بہت سے الفاظ مستعمل ہیں، مثلاً: سیاہ کرتوت، اور اس کے بالمقابل روشن وتابناک زمانہ اور کارنامے)

نیز ہماری شریعت نے ہمیں اپنی گفتگو وکلام میں  الفاظ کے عمدہ چناؤ کا حکم دیاہے اور کسی بھی ایسے لفظ کے استعمال سے منع کیاہے جس سے غیرمناسب معنی مرادلیاجاسکتاہو اگر چہ کلام کرنے والے کی نیت میں وہ معنی موجود نہ ہو۔قرآن کریم کی سورہ بقرۃ کی آیت نمبر:104 میں اللہ تعالی نے اہلِ ایمان کو لفظ''راعنا''کے استعمال سے منع فرمایا،باوجودیکہ اس لفظ کے معنی غلط نہیں ہیں، نہ ہی مسلمان ان الفاظ سے نامناسب معنی مراد لے سکتے تھے۔

مفسرین لکھتے ہیں ''رَاعِنَا''کے معنی ہیں:ہمارا لحاظ اور خیال کیجیے۔ سامع کو جب کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو  اس لفظ کا استعمال کر کے متکلم کو اپنی طرف متوجہ کرتا تھا، لیکن یہودی اپنے بغض و عناد کی وجہ سے اس لفظ کو تھوڑا سا بگاڑ کر استعمال کرتے تھے جس سے اس کے معنی میں تبدیلی اور ان کے جذبہ عناد کی تسلی ہو جاتی۔چناں چہ مومنین کو حکم دیاگیا کہ :''اے اہل ایمان (گفتگو کے وقت پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے) ''راعنا ''نہ کہا کرو'' اُنْظُرْنا '' کہا کرو اور خوب سن رکھو اور کافروں کے لیے دکھ دینے والا عذاب ہے''۔

اس آیت کریمہ سے ایک  مسئلہ یہ معلوم ہوا کہ ایسے الفاظ جن میں تنقیص و اہانت کا شائبہ ہو، ادب و احترام کے پیش نظر بھی  ان کا استعمال صحیح نہیں،نیز اس آیات میں یہ  اصولی تعلیم دی گئی ہے کہ جن الفاظ و کلمات سے غلط معانی و مطالب کا وہم ہوتا ہو ،ان کو بھی ترک کر کے ان کی جگہ ایسے دوسرے الفاظ و کلمات استعمال کیے جائیں جن میں ایسے غلط معانی کے ایہام کی گنجائش نہ ہو ۔( اصول فقہ کی اصطلاح میں اسے  سد ذرائع سے تعبیر کیا جاتا ہے ) ۔

دوسرا مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ کفار کے ساتھ افعال اور اقوال میں مشابہت سے بچا جائے تاکہ مسلمان حدیث ''من تشبہ بقوم فھو منھم ''[ جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں شمار ہوگا] کی وعید میں داخل نہ ہوں ۔

اس تفصیل کاحاصل اور نچوڑ یہی ہے کہ جمعہ کے مبارک دن کو''بلیک فرائیڈے''کہنااور مسلمانوں کو غیرمسلموں کے اس مخصوص دن  کی مناسبت سے ان کے ساتھ شامل ہونایااسے رائج کرناجائز نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143902200086

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں