بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

جماعت المسلمین سے متعلق ایک فتوی پر اشکال کا جواب


سوال

 آپ کے کچھ سوالات کے جوابات دیکھ رہا تھاجوجماعت المسلمین کے بارے میں تھے۔ آپ کا کہنا ہے کہ جو انسان سب کو کافر کہے وہ کیسے مسلم ہو سکتا ہے۔ میرے پیارے بھائی ! قرآن مجید یہ فیصلہ کرتا ہے کون کافر ،کون مشرک ،کون مومن وغیرہ ۔ یہ حق کسی بھی جماعت کو نہیں کہ فیصلہ کرے کہ کون کافر اور مشرک ہے۔ اگر جماعت المسلمین اپنے واضح دلائل اور تشریح کے ساتھ قرآن سے واضح کر دیتی ہے، تو میں یا آپ کون ہوتے ہیں ان کو کافر کہنے والے؟ آپ اپنے دلائل دیں۔

میرا سوال یہ ہے کہ  '' ہاروت ماروت''  کون تھے؟ سورۃ البقرہ 102 کے تحت ہاروت ماروت کو اکثر مفسرین نے  فرشتے کہاہے، اور اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہوئے جادو کا نزول اللہ کی طرف سے کر دیا، جب کہ یہ غلط ہے۔ ہاروت ماروت شیطان انسانوں میں سے تھے نہ کہ فرشتے۔ اس کی وضاحت اور بھی مفسرین نے کی ہے ۔اب یہاں کسی کو سمجھایا جائے اور وہ سمجھنے کی بچائے اس سے انکار کرے تو اس پر کیا فتویٰ لگائے جاتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ ہمارے کسی فتوے میں جماعت المسلمین کو کافر نہیں کہا گیا ہے، بلکہ ان کی تکفیر میں احتیاط کا حکم بیان کیا گیا ہے، البتہ ان کے عقائدِ فاسدہ کی وجہ سے ان کو گمراہ کہا گیا ہے۔ ہمارے جواب کی مکمل عبارت ملاحظہ فرمائیں:

'' واضح رہے کہ جماعت المسلمین والے  اپنے عقائدِ واہیہ وفاسدہ کی وجہ سے اہلِ سنت والجماعت سے خارج اور گمراہ ہیں۔ یہ بات کہ کسی مسلمان کو کافر سمجھنے والا خود کیسے مسلمان ہوسکتا ہے، اس بارے میں تفصیل یہ ہے کہ کسی مسلمان کو کافر کہنا یا کافر کو مسلمان کہنا ،دونوں جانب سے نہایت سخت اور شدید احتیاط کا متقاضی ہے، جب تک کسی کی باتوں کی تاویل صحیح کی گنجائش ہو اور اس کے خلاف کی تصریح متکلم کے کلام میں نہ ہو یا اس کے عقیدہ کے کفر ہونے میں ائمہ اجتہاد کا  ادنی سے ادنی اختلاف واقع ہوا ہو اس وقت تک اس کو کافر نہیں کہا جائے گا۔اس معاملہ میں بےباکی اور جلدبازی سے کام لینا نہایت خطرناک ہے''۔ (جواہر الفقہ، ج:۱، ص: ۳۶) 

اس جواب میں یہ جملہ:  '' کسی مسلمان کو کافر سمجھنے والا خود کیسے مسلمان ہوسکتا ہے''، درحقیقت سائل کے اشکال کے جواب کی تمہید کے طور پر ہے، نہ کہ ہمارا جواب ، اس سے آگے کی مکمل عبارت غور سے پڑھی جائے تواشکال دور ہوجاتاہے۔

باقی جن عقائد ونظریات کی بنیاد پر ان کو گمراہ اور اہلِ سنت سے خارج کہا گیا ہے اس کی تفصیل جامعہ بنوری ٹاؤن کے فتاوی کے مجموعے '' فتاوی بینات'' میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ 

  جہاں تک '' ہاروت وماروت''  کا تعلق ہے تو مفسرین کے کلام سے قطع نظر خود قرآن کریم سے ان کا فرشتے ہونا معلوم ہوتا ہے جن کو  اللہ تعالیٰ نے امتحان کے طورپر بھیجا تھا، تفصیل کا یہ موقع نہیں، البتہ اگر عربی زبان کے قواعد سے کسی کوذرا واقفیت ہو تو وہ سمجھ سکتا ہے کہ قرآن کریم  ہی نے  ان کو فرشتے قرار دیا ہے۔ چناں چہ قرآن مجید  کی آیت  اس بات کو واضح کر رہی ہے، ارشاد ہے:

 ﴿ وَ مَآ اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ بِبَابِلَ هَارُوْتَ وَ مَارُوْتَ ﴾

اس آیت میں﴿ هَارُوْتَ وَ مَارُوْ تَ ﴾  ترکیبی اعتبار سے   لفظ  ﴿ مَلَکَیْنِ ﴾سے بدل ہے، اور معنی یہ ہے کہ اہلِ کتاب نے اس شے کی تابعداری کی جو بابل شہر میں دو فرشتوں ہاروت وماروت پر اتاری گئی۔

اور جو لوگ "ہاروت وماروت" کو شیطان کہتے ہیں وہ ﴿ وَ لٰکِنَّ الشَّیٰطِیْنَ ﴾  میں شیاطین سے بدل بناتے ہیں، حال آں کہ اگر اس سے بدل ہوتا تو اس کے ساتھ  متصل ہی  ذکر ہوتا، نیز﴿کَفَرُوْا﴾ وغیرہ جمع کے صیغے  اس کے خلاف ہیں، غرض قرآنی روشنی صاف بتلا رہی ہے کہ ہاروت وماروت فرشتے ہیں۔

علاوہ ازیں وہ جادو سے روکتے تھے اور کہتے تھے کہ کفر نہ کرو اگر وہ شیطان ہوتے تو کفر سے کیوں روکتے۔

اس تفصیل  سے واضح ہے کہ حق جمہور کے ساتھ ہے، اور جمہور کی راہ سے ہٹ کر اپنی الگ رائے قائم نہیں کرنی چاہیے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143812200073

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں