جانورکوپالنےکےلیے اس طور پر کسی کو دینا کہ چھ ماہ بعد جانورکی جوقیمت ہوگی، اس میں سےخریدکی قیمت نکال کرباقی رقم کا آدھا حصہ جانورپالنےوالےکوبطورِ اجرت دیا جائے گا، اس معاملےکاشرعی طورپرکیاحکم ہے؟
اجارہ کے معاملے میں شرعاً یہ لازم ہے کہ اجرت متعین ہو، اگر کسی معاملہ میں اجرت متعین نہ ہو تو ایسا معاملہ فاسد ہوتا ہے۔ مذکورہ صورت میں اس کے پالنے کی اجرت کتنی ملے گی؟ یہ معلوم نہیں، بلکہ ہو سکتا ہے کہ قیمتِ خرید کے برابر ہی قیمتِ فروخت ہو تو اس صورت میں اس کی اجرت ہی نہیں ہوگی، لہذا ایسا معاملہ کرنا شرعاً جائز نہیں۔
’’عن أبي سعید الخدري -رضي اﷲ عنه - أن رسول اﷲ ﷺ نهى عن استئجار الأجیر حتی یبین له أجره‘‘. (مراسیل أبي داؤد/ ۱۰)
’’ومن شرائط الإجارة ... ومنها: أن تکون الأجرة معلومةً‘‘. (الفتاوى الهندية، کتاب الإجارة، الباب الأول)فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143908200804
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن