بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تقلید کی ضرورت اور اہمیت


سوال

سوال یہ اٹھتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاۓ راشدین و صحابہؑ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں نہ یہ فقہ تھی، نہ ہی مسلک اور نہ ہی یہ تاکید کہ کسی خاص امام یا فرقے کی پیروی کرنی ہے- جو کچھ قرآن و حدیث میں موجود ہے، اس پر عمل کرنے والا ہی کامیاب ہے- قرآن پاک کے احکامات میں تو کوئی  فرق ہوہی نہیں سکتا- البتہ فرق احادیث کی روایات میں ہیں- تو برادرم اگر کوئی شخص ان تضاد سے مبرا ہو کہ جو صحاح ستہ کی احادیث میں بیان ہوا ہے اسے اپناۓ اس شخص کے بارے میں علماء کا کوئی بیان ہے؟مثال کے طور پر: میں نے صحاح ستہ کا مطالعہ کیا ہے وہاں رفع یدین کے بیان میں زیادہ احادیث میں کرنے پر زور ہے اور ایک حدیث حصرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جس میں ذکر ہے کی نہیں کرنا- اسی طرح امام کے پیچھے آمین  کہنے، نماز قصر کے بیان وغیرہ میں مختلف روایات سے مختلف طریقے بیان ہیں- تو اگر ایک شخص صحاح ستہ کو سامنے رکھ کے عبادات کے معاملے میں عمل کرے تو اس کے عذر کا وزن کیا ہوگا؟

اس کے علاوہ مہربانی فرما کے یہ بھی بتا دیجیے گا کہ مختلف احادیث پر مختلف عمل کرنے میں کیا اختلاف ہے؟ اور اگر کوئی شخص کسی خاص فرقے کا داعی نہ ہو تو کیا ھوگا؟اسی طرح دو اشخاص کا حدیث کے معاملے میں اختلاف آرہا ہو اور ایک دوسرے کو غلط جانا جاۓ تو دین میں ان کی کیا حیثیت ہو گی؟جواب اگر توسط کے ساتھ مل جاۓ تو بہتر ہے کیوں کہ کسی کو بتانا ہو تو آج کل لوگ ریفرینس کے بغیر قبول کرنے میں ہچکچاتے ہیں۔

جواب

عام آدمی مختلف فیہ آحادیث کے مابین یہ فرق نہیں کرسکتا کہ کون سی حدیث ناسخ ہے اور کون سی منسوخ، کون سی حدیث راجح ہے اور کون سی مرجوح اور کون سی حدیث کا کیا درجہ ہے اور اس کا محل اور مصداق کیا ہے؟ اسی لیے ہر کس و ناکس کو اس کی اجازت نہیں کہ صحاح ستہ کو سامنے رکھ کر کسی ماہر مستند اہل حق عالم سے پڑھے اور سمجھے بغیر از خود عمل کرنا شروع کردے ،اس سے نفسانی خواہشات کی پیروی میں پڑ جانے، تشویش بلکہ گمراہی تک کا اندیشہ ہے، جیسے کوئی نابینا شخص ہو جو راستے کے خطرات او رنشیب و فراز سے ناواقف ہو اورو وہ کسی بینا شخص کا ہاتھ پکڑے بغیر او رکسی جانکار کی راہنمائی کے بغیر پُرخطر راستے پر چل پڑے تو امکان اس کا ہے کہ وہ راستہ بھٹک جائے یا راستے کے گڑھے میں گر پڑے، اس لیے سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ جو حضرات قرآن وحدیث او ردین و شریعت کے ماہرین ہیں ان کی تشریحات پر اعتبار کیا جائے۔

اسلاف میں سے حضرات ائمہ اربعہ کی علمی بصیرت او راجتہادی شان پر دنیائے اہل علم کا اتفاق ہے اور ان کے مذاہب و مسائل کتابوں میں مدوّن ہیں، اس لیے ان چار ائمہ مجتہدین میں سے کسی ایک امام کی تقلید لازم و واجب ہے، اس لیے کہ فقہاء کرام احادیث کے معانی اور مفاہیم کو سب سے زیادہ جانتے ہیں، لہٰذا اپنی ناقص فہم کے مقابلے میں ان مجتہدین کے فہم پر اعتماد کرنا بدرجہا بہتر ہے.

باقی آپ کا یہ کہنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاۓ راشدین و صحابہؑ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں  یہ فقہ تھی نہ تقلید، تو یہ غلط فہمی تاریخ  وتدوین فقہ سے ناواقفیت  کی بنا پر ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی اور اس کے بعد بھی صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے بعض فقہاء صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف مسائل میں رجوع کیا جاتاتھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور میں مطلق تقلید شائع وذائع تھی، بلکہ تقلید شخصی کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔آگے جن کتابوں کا حوالہ دیا جائے گا ان کا مطالعہ اس غلط فہمی کے ازالہ میں ان شاء اللہ مفید ثابت ہوگا۔

تقلید کیوں ضروری ہے؟ اور عدم تقلید کی صورت میں کیا نقصان ہے؟ اور ائمہ اربعہ میں سے ہی کسی ایک کی تقلید کیوں لازم ہے وغیرہ وغیرہ ان تمام موضوعات کی تفصیل کے لیے دیکھیے: اجتہاد و تقلید کا آخری فیصلہ (افادات حضرت تھانوی رحمہ اللہ ترتیب: مولانا زید مظاہری صاحب) اور آپ کے مسائل اور ان کا حل جلد اول، ص/ ۲۷تا ۳۲ از مولانا محمد یوسف صاحب لدھیانوی رحمہ اللہ ) فقط واللہ تعالی اعلم  


فتوی نمبر : 143406200072

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں