بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تقسیم میراث کی ایک صورت


سوال

ایک شخص کا انتقال ہوا ہے، ایک بیوہ، چار بیٹیاں، اور دو بیٹے چھوڑے ہیں۔ مرحوم کی تمام رقم بیٹوں نے رکھ لی ہے، نہ ماں کا حصہ دیا نہ بہنوں کا، اب کچھ شیئرز ہیں جو مرحؤم نے چھوڑے تھے، اور اس کا نومینی اپنی بیوی کو بنایا تھا۔ اب ان شیئرز پر کسی کا حق ہے؟ کیا بیٹوں کو بھی ان میں سے پیسہ دینا ہوگا یا یہ صرف بیوہ کی ملکیت ہوں گے؟ 

جواب

مرحوم شخص کی شیئرز سمیت جملہ املاک مرحوم کی میراث میں ان کے شرعی ورثا میں تقسیم ہوں گی، اس تقسیم میں کسی قسم کی کمی بیشی کرنا کسی کے لیے جائز نہیں، اگر بیٹوں نے ماں اور بیٹیوں کے حصے میں خرد برد کی ہے تو یہ عمل ان کے لیے ناجائز اور یہ مال ان کے لیے حرام ہوگا۔ مرحوم کی جملہ املاک کی تقسیم اس طور پر ہوگی کہ ساڑھے بارہ فیصد (12.50%)بیوہ  کا ہوگا، اکیس اعشاریہ ستاسی فیصد (21.87%)ہر ایک بیٹے کا، اور دس اعشاریہ ترانوے فیصد (10.93%)ہر ایک بیٹی کا ہوگا۔ واضح رہے کہ شیئرز کی نومینی کرنےسے شیئرز میں تصرف کا تو حق حاصل ہوتا ہے، ملکیت نہیں ہوتی، اس لیے یہ شیئرز بھی مرحوم کی جملہ املاک کے ساتھ تقسیم ہوں گے البتہ  بیوہ اپنے اور بیٹیوں کے حصے کے وصولی کےلیے بیٹوں کا حصہ روک سکتی ہے۔


فتوی نمبر : 143611200010

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں