بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح میں پڑھے گئے قرآن کا ایصالِ ثواب / قرآن کے ایصال ثواب کا ثبوت


سوال

 کیا تراویح میں پڑھے گئے قرآن کا ایصالِ ثواب درست ہے؟ کیا دورِ رسول ﷺ  یا دورِ صحابہ میں تراویح میں پڑھے جانے والے قرآن کو کسی صحابی نے ایصال ثواب کے لیے استعمال کیا؟

جواب

تراویح میں پڑھے گئے قرآن کا ایصالِ ثواب درست ہے، اور جس کو اس کا ثواب پہنچایا جائے  اس کو فائدہ پہنچتا ہے۔

انسان کواصل اجر تواپنے اعمال کا پہنچتا ہے؛ لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انسان کودوسروں کے اعمال کا اجر بھی پہنچاتے ہیں، دعا اور صدقہ دوسرے کے حق میں نافع ہونے اور اس کا ثواب پہنچنے پرتواہلِ سنت والجماعت کا اتفاق ہے، جمہور اہل سنت کے نزدیک قرأتِ  قرآن اور دوسری بدنی عبادتوں (حج، روزہ اور نماز وغیرہ) کا ثواب بھی پہنچتا ہے؛ یہی بات حدیث سے معلوم ہوتی ہے۔

 حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:
سورۂ یٰسین قرآن کا قلب ہے، جوشخص اس کواللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت کے لیے پڑھے گا اس کی مغفرت ہوگی؛ نیز تم اس سورت کواپنے مردوں پرپڑھا کرو۔

ایک شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے والدین زندہ تھے تومیں ان کے ساتھ حسن سلوک کیا کرتا تھا، اب ان کی وفات ہوگئی، تواب میں ان کے ساتھ کس طرح سلوک کروں؟ آپ نے فرمایا: اپنی نماز کے ساتھ ان دونوں کے لیے نماز پڑھو اور اپنے روزوں کے ساتھ ان دونوں کے لیے روزہ رکھو۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جوقبرستان میں داخل ہو، وہ سورہ فاتحہ ، قل ہو اللہ احد اور أَلْهٰکُمُ التَّکَاثُرْپڑھے اور کہے کہ میں نے اس پڑھے ہوئے کلام کا ثواب اہلِ قبرستان مسلمان مردوں اور عورتوں کے لیے کردیا، تووہ لوگ اس شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کے نزدیک سفارشی ہوں گے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جوقبرستان میں داخل ہو اور سورۂ یٰسین پڑھے تواللہ تعالیٰ ان سب یعنی قبرستان میں مدفون لوگوں سے عذاب کوہلکا کردیتے ہیں اور اس کے لیے ان تمام لوگوں کے برابر نیکیاں ہوتی ہیں۔(تفسیر مظہری : ۹ / ۱۲۹)

ابن الجلاج رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے صاحب زادگان سے فرمایا: جب تم لوگ مجھے میری قبر میں داخل کرو توقبر میں رکھتے ہوئے کہو بِسْمِ اللهِ وَعَلَی سُنَّةِ رَسُوْلِ اللهِ پھرمٹی ڈال دو اور میرے سرہانے سورۂ بقرہ کا ابتدائی اور آخری حصہ پڑھو؛ کیوں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کودیکھا ہے کہ وہ اس عمل کوپسند فرماتے تھے؛ محدثین نے اس کی سند کومعتبر ومقبول مانا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ قرآن اور بدنی عبادتوں کے ذریعہ ایصال ثواب حدیث سے ثابت ہے اور یہی ائمہ اربعہ میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک اور امام احمد رحمہم اللہ کی رائے ہے اور فقہاء شوافع میں سے بھی بہت سے لوگ اسی کے قائل ہیں۔ نفسِ قرآنِ کریم کی قرأت کے ایصالِ ثواب کے ثبوت کے بعد خاص تراویح میں پڑھے گئے قرآن کی تلاوت کے ایصالِ ثواب کا ثبوت ضروری نہیں ہے؛ مستقل طور پر اس کے ثبوت کی ضرورت تب ہوتی جب تراویح میں پڑھے گئے قرآن کے ایصالِ ثواب کو سنت کہا جاتا، یہاں بات جواز کی ہے۔

مسند أحمد مخرجاً (33/ 417):
" عن معقل بن يسار، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " البقرة سنام القرآن وذروته، نزل مع كل آية منها ثمانون ملكاً، واستخرجت {الله لا إله إلا هو الحي القيوم} [البقرة: 255] من تحت العرش، فوصلت بها، أو فوصلت بسورة البقرة، ويس قلب القرآن، لايقرؤها رجل يريد الله والدار الآخرة إلا غفر له، واقرءوها على موتاكم".

الفتح الرباني لترتيب مسند الإمام أحمد بن حنبل الشيباني (8/ 101):
"(وروى الدارقطني) أن رجلاً قال: يا رسول الله إنه كان لي أبوان أبرهما في حال حياتهما، فكيف لي ببرهما بعد موتهما؟ قال: إن من البر بعد البر أن تصلي لهما مع صلاتك وأن تصوم لهما مع صيامك.

(وعن عبد الرحمن بن العلاء) بن اللجلاج عن أبيه أنه قال لبنيه: إذا أدخلتموني قبري فضعوني في اللحد، وقولوا: "بسم الله وعلى سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، وسنوا علي التراب سناً، واقرءوا عند رأسي أول البقرة وحاتمتها؛ فإني رأيت ابن عمر يستحب ذلك. رواه (هق. طب) وسنده جيد (الأحكامي) أحاديث الباب مع ما ذكرنا في الزوائد تدل على انتفاع الميت بما يهديه إليه الأحياء من أعمال الخير كالصدقة والصلاة والصيام والحج والعتق وقراءة القرآن (وللعلماء في ذلك مذاهب شتى) (قال الحافظ ابن القيم) في كتابه الروح: أجمع أهل السنة على انتفاع الأموات بشيئين: (أحدهما) ما تسبب به الميت في حياته؛ لقوله تعالى: {فمن يعمل مثقال ذرة خيراً يره ومن يعمل مثقال ذرة شراً يره}، واستدل بأحاديث كثيرة، (منها): حديث أبي هريرة المذكور في الزوائد بلفظ: "إذا مات الإنسان انقطع عمله إلا من ثلاث الخ". (والثاني): دعاء المسلمين واستعفارهم والتصدق عنه والحج؛ لقوله تعالى: {والذين جاءوا من بعدهم يقولون ربنا اغفر لنا ولإخواننا الذين سبقونا باللإيمان}. وأجمعت الأمة على الدعاء للميت في صلاة الجنازة وأتى باحاديث كثيرة في هذا المعنى".

اعلاء السنن:

’’عن علي رضي اللّٰه عنه مرفوعاً: من مر علی مقابر، وقرأ: {قل هو اللّٰه أحد} إحدی عشرة مرة، ثم وهب أجره للأموات، أعطی من الأجر بعدد الأموات‘‘.  (إعلاء السنن دارالکتب العلمیۃ ۸؍۳۳۰ رقم: ۲۳۲۰)

وفیہ ایضا:

’’عن أبي هریرة رضي اللّٰه عنه قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: من دخل المقابر، ثم قرأ فاتحة الکتاب، و قل هواللّٰه أحد، وألهکم التکاثر، ثم قال: اللّٰهم إني قد جعلت ثواب ما قرأت من کلامک لأهل المقابر من المؤمنین والمؤمنات کانوا شفعاء له إلی اللّٰه تعالی‘‘.(إعلاء السنن ۸؍۳۳۱ رقم: ۲۳۲۱)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201058

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں