بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح بیس رکعت ہے یا آٹھ رکعت؟


سوال

20رکعات اور 8رکعات تراویح کا فرق کیا ہے? اور دلیل دونوں پر چاہیے اور فتوی کس والے ہے؟

جواب

بیس رکعت تراویح سنتِ مؤکدہ ہے، تراویح آٹھ رکعت نہیں ہے،  بیس رکعت تراویح پڑھنا رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں بیس رکعت{تراویح}اور وتر پڑھا کرتے تھے۔{مصنف ابن ابی شیبہ:۵/ ۲۲۵،حدیث نمبر:۷۷۷۴،ط:ادارۃ القرآن کراچی}

نیز اگر امت کسی حدیث کو قبول کرلے اور اس پر سب عمل کریں  تو وہ متواتر کے معنی میں ہوجاتی ہے، اور امت کا کسی حدیث کو قبول کرنا اسی صحت اور حجت ہونے کی قوی ترین دلیل ہے، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی مذکورہ حدیث اگرچہ خبر واحد ہے، لیکن صحابہ کرام،تابعین،تبع تابعین،ائمہ مجتہدین اور تمام امت نے اسے قبول کیا ہے اور اب تک اسی پر عمل کرتے ہوئے بیس رکعت تراویح ادا کرتے آرہے ہیں، اور اس پر تمام صحابہ کرام کا اجماع ہے، لہذا بیس رکعت تراویح ہی سنتِ مؤکدہ ہے، تراویح کی آٹھ رکعت کہنا اور اس پرعمل کرنا اجماعِ امت کے خلاف ہے۔ "مرقاۃ المفاتیح" میں ہے: 
" لكن أجمع الصحابة على أن التراويح عشرون ركعةً".(3/382، ط: رشیدیہ)
"عمدۃ القاری شرح صحیح للبخاری" میں ہے:
"روى عبد الرزاق في (المصنف) عن داود بن قيس وغيره عن محمد بن يوسف (عن السائب بن يزيد: أن عمر بن الخطاب، رضي الله تعالى عنه، جمع الناس في رمضان على أبي بن كعب، وعلى تميم الداري على إحدى وعشرين ركعةً يقومون بالمئين وينصرفون في بزوغ الفجر، قلت: قال ابن عبد البر: هو محمول على أن الواحدة للوتر. وقال ابن عبد البر: وروى الحارث بن عبد الرحمن بن أبي ذباب عن السائب بن يزيد، قال: كان القيام على عهد عمر بثلاث وعشرين ركعةً. قال ابن عبد البر: هذا محمول على أن الثلاث للوتر. وقال شيخنا: وما حمله عليه في الحديثين صحيح، بدليل ما روى محمد بن نصر من رواية يزيد بن خصيفة عن السائب بن يزيد أنهم كانوا يقومون في رمضان بعشرين ركعةً في زمان عمر بن الخطاب رضي الله تعالى عنه. وأما أثر علي رضي الله تعالى عنه، فذكره وكيع عن حسن بن صالح عن عمرو بن قيس عن أبي الحسناء عن علي رضي الله تعالى عنه، أنه أمر رجلاً يصلي بهم رمضان عشرين ركعةً. وأما غيرهما من الصحابة فروي ذلك عن عبد الله بن مسعود، رواه محمد بن نصر المروزي قال: أخبرنا يحيى بن يحيى أخبرنا حفص بن غياث عن الأعمش عن زيد بن وهب، قال: (كان عبد الله بن مسعود يصلي لنا في شهر رمضان) فينصرف وعليه ليل، قال الأعمش: كان يصلي عشرين ركعةً ويوتر بثلاث). وأما القائلون به من التابعين: فشتير بن شكل، وابن أبي مليكة والحارث الهمداني وعطاء بن أبي رباح، وأبو البحتري وسعيد بن أبي الحسن البصري أخو الحسن وعبد الرحمن ابن أبي بكر وعمران العبدي. وقال ابن عبد البر: وهو قول جمهور العلماء، وبه قال الكوفيون والشافعي وأكثر الفقهاء، وهو الصحيح عن أبي بن كعب من غير خلاف من الصحابة". (8/246، باب فضل من قام رمضان، ط: دارالفکر بیروت)

آٹھ رکعات تراویح نہیں، بلکہ تہجد ہے۔ اوربیس رکعات تراویح ہے۔تراویح کے بارے میں فتوی بیس رکعت پر ہی ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200035

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں