بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تحریری طور پر ایک طلاق اور اس کی عدت کا حکم


سوال

 میرے شوہر نے مجھے ۱۴ جنوری کو تحریری طور پر اسٹیمپ پیپر پر ایک طلاق بھیجی۔ میں اپنے تین بچوں کے ساتھ اپنی والدہ کے گھر رہتی ہوں۔ ہمارے درمیان گزشتہ ۷ ماہ سے بات چیت اورکسی قسم کا کوئی  ازدواجی تعلق نہیں، اب ہم دونوں کا مزید  رشتے کو نبھانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ ۱۴ جنوری ۲۰۱۹سے اب تک ہم نے رجوع نہیں کیا اور نہ ہی کرنے کا ارادہ ہے، اس دوران میں دو ماہ واری سے فارغ بھی ہوچکی ہوں۔ ایسے میں کیا میری دو طلاقیں ہو چکی ہیں؟ میری عدت کب سے کب تک ہوگی؟ نیز یہ کہ میں نے عدالت میں خلع کے لیے کیس دائر کیا ہوا ہے، وہاں جج کے سامنے شوہر نے خلع دینے پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔ میں اپنا جہیز بھی واپس لا چکی ہوں، عدالت سے ۲۰ اپریل تک خلع کاآرڈر بھی آجائے  گا۔ اس صورت میں خلع کی کیا صورت حال ہوگی؟ 

جواب

 اگر شوہر نے تحریری طور پر ایک طلاق لکھ کر بھیجی ہے تو یہ ایک ہی طلاق شمار ہوگی، ہرماہ دوسری طلاق واقع نہیں ہوگی۔ مذکورہ صورت میں عدت تین ماہ واریاں ہے؛ لہذا شوہر کے طلاق دینے کے بعد دو ماہ واریاں گزری ہیں تو ابھی عدت باقی ہے، ایک ماہ واری اور گزارنی ہوگی، مزید ایک ماہ واری گزرجائے اور اس دوران رجوع نہیں کیا گیا تو نکاح ختم ہوجائے گا۔ اس کے بعد سائلہ اپنی مرضی سے دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی، اور باہمی رضامندی سے شوہر سے نئے مہر کے ساتھ نکاحِ جدید کی بھی اجازت ہوگی، البتہ اس صورت میں شوہر کو صرف دو طلاق کا اختیار ہوگا۔ 

اگر عدالت نے اسی عدت کی مدت میں شوہر کی رضامندی سے خلع کرادی تو یہ مجموعی اعتبار سے دو طلاقِ بائن ہوجائیں گی، پھر رجوع کا حق نہیں رہے گا۔ اور اگر عدالت نے عدت کی مدت ختم ہونے کے بعدخلع کرائی تو اس سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اور جدائی کے لیے خلع کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200260

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں