کسی شخص نے اپنے بیٹے کی شادی کے لیے رقم رکھی ہوئی ہو، اس دوران حج کے دن آ جائیں تو کیا اس پر حج فرض ہو جاتا ہے؟
حج اس عاقل بالغ، تن دُرست مسلمان پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہوتاہے جس کے پاس ضرویاتِ اصلیہ اور اہل وعیال کے واجبی خرچہ کے انتظام کے علاوہ اس قدر زائد رقم ہو جس سے حج کےضروری اخراجات (وہاں کے قیام اور کھانے وغیرہ) اور آنے جانے کا خرچ پورا ہوسکتا ہو۔ اگر اس قدر رقم موجود ہو (خواہ وہ بچوں کی شادی کے لیے رکھی ہوئی ہو) حج فرض ہوجائے گا، ہاں اگر مذکورہ رقم حج کی درخواستیں جمع ہونے کے اعلان ہونے سے پہلے بیٹے کی شادی کے سامان میں استعمال کردی تو پھر حج فرض نہیں ہوگا۔ "ہدایہ" میں ہے:
’’الحج واجب علی الأحرار البالغین العقلاء الأصحاء إذا قدروا علی الزاد والراحلة فاضلاً عن المسکن وما لا بد منه، وعن نفقة عیاله إلی حین عوده، وکان الطریق آمناً ووصفه الوجوب‘‘. فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144003200055
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن