بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بیٹیوں کے لیے وصیت کرنا


سوال

ان تینوں سوالوں کے تفصیلی جواب درکار ہیں:

سوال ١: ایک شخص کی ایک بیوی، دو بیٹیاں ہیں اور ایک بھائی  اور تین بہنین ہیں. سب شادی شدہ ہیں. مرنے کے بعد جائیداد کس طرح تقسیم ہوگی؟

سوال ٢: اگر حیاتی میں صرف دونوں  بیٹیوں میں جائیداد کی تقسیم کرنی ہو، اس کا کیا طریقہ کار ہے؟ باپ اگر دونوں بیٹیوں کے نام وصیت کرکے جائےتو کیا وہ قابلِ قبول ہوگی؟

سوال ٣: اگر والدین کے انتقال کے بعد ترکہ تقسیم نہیں کیااور بعد میں کسی اولاد کا انتقال ہوجائے تو کیا وہ حصہ اس کی اولاد کو ملے گا؟ 

جواب

۱) مذکورہ شخص کے مرنے سے پہلے اس کے ترکہ کی تقسیم کے طریقے کا سوال قبل از وقت ہے،انتقال کے وقت جو ورثاء موجود ہوں اس وقت ان کی تفصیل بتا کر تقسیم کا طریقہ معلوم کر لیا جائے۔

۲)اگر حیات میں ہی دونوں بیٹیوں  میں جائیداد تقسیم کرنی ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ دونوں کو زندگی ہی میں باقاعدہ قبضہ بھی دے دیا جائے، صرف زبانی کہنے سے ہبہ (گفٹ) نہیں ہوگا، اور دونوں کو برابر برابر حصہ دینا ہوگا۔لیکن اگر باپ  بیٹیوں کے نام وصیت کر کے جائے تو یہ وصیت دیگر ورثاء کی اجازت کے بغیر شرعاً معتبر نہیں ہوگی، کیوں کہ بیٹیاں وارث ہوتی ہیں  اور حدیث شریف کی رو سے وارث کے لیے کی گئی وصیت دیگر ورثاء کی اجازت کے بغیر معتبر نہیں ہوتی۔

۳)اگر والدین کے انتقال کے بعد ترکہ کی تقسیم سے پہلے اولاد میں سے کسی کا انتقال ہوجائے تو اس مرحوم اولاد کا حصہ اس کے اپنے ورثاء میں تقسیم ہوگا، اس میں اس کی اس وقت موجود اولاد شامل ہوگی۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200766

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں