بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کی طرف نسبت کئے بغیر طلاق کے الفاظ ادا کرنا / طلاق کا وقوع سمجھ کر اقرار کرنا


سوال

امجد کی شادی ہوئی اس نے تین طلاق کے بارے میں اخبار میں کالم پڑھا، اس کے ذہن میں یہ مضمون دوڑنے لگا، بے احتیاطی میں وہ کسی کام میں مشغول تھا تو لفظ نکلا "تین طلاق"۔ اس نے کہا: یہ میں نے کیا کہہ دیا، وہ بڑا پشیمان ہوا، ابھی بیوی گھر نہیں آئی تھی اور نہ ہی ہم بستری ہوئی تھی، حرام کاری کے ڈر سے اس نے سارا ماجرا خط میں سسر کو لکھ دیا، اور ٹی سی ایس سے بھیج دیا کہ حنفی فقہ میں بغیر سوچے اگر منہ سے تین طلاق نکل جائے تو طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ فقہ کے مطابق طلاق ہوگئی ہے، میں حلالہ کروانے کے لیے تیار ہوں، وہ اب اپنی بیوی سے دوبارہ شادی کرنا چاہتا ہے، اور اس واقعہ کو سال ہو گیا ہے۔

جواب

واضح رہے کہ بیوی کی غیر موجودگی میں طلاق واقع ہونےکے لیے یہ ضروری ہے کہ شوہر  طلاق  کی نسبت بیوی کی طرف کرے، مثلاً میں نے اپنی بیوی کو طلاق دی، یا اپنی بیوی کا نام لے کر کہے کہ طلاق دی اور بیوی کی موجودگی میں بھی طلاق کی نسبت بیوی کی طرف کرنا ضروری ہے خواہ اشارۃً نسبت کرے۔  اور اگر بیوی کی طرف نسبت نہیں کی ہے نہ صراحۃً اور نہ اشارۃً  تو شرعاً طلاق واقع نہیں ہوتی۔

 صورتِ مسئولہ میں اخبار کا کالم پڑھنے کے بعد  اگر امجد کے منہ سے بے دھیانی میں صرف "تین طلاق" کا لفظ نکل گیا تو اس سے اس کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی تھی، البتہ امجد نے یہ سمجھ کر کہ میری بیوی کو طلاق ہوگئی ہے، اپنے سسر کو خط لکھا کہ  طلاق ہوگئی ہے تو یہ طلاق کا اقرار ہے، اس سے طلاق واقع ہوجاتی ہے، تاہم طلاق کے عدد میں اس نے اپنے سسر کو جو لکھا تھا اس کا اعتبار ہوگا، ابتدائی تین طلاق کے قول کا اعتبار نہیں ہوگا، اگر سسر کو  تین طلاق کا اقرار لکھ کر بھیجا تھا تو تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں تھی، اور اگر صرف طلاق کا یا ایک طلاق کا لکھا تھا تو ایک ہی طلاق واقع ہوگی۔ 

      فتاوی شامی میں ہے:

’’لكن لا بد في وقوعه قضاءً وديانةً من قصد إضافة لفظ الطلاق إليها‘‘. (3/250، کتاب الطلاق، ط؛ سعید)

غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر (1/ 461):
’’ولو أقر بطلاق زوجته ظاناً الوقوع بإفتاء المفتي فتبين عدمه لم يقع، كما في القنية.

قوله: ولو أقر بطلاق زوجته ظاناً الوقوع إلى قوله لم يقع إلخ. أي ديانةً، أما قضاء فيقع ،كما في القنية؛ لإقراره به‘‘. فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200318

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں