بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو "یہ میری طرف سے فارغ ہے" کہنے کا حکم


سوال

میری اپنی بیوی کے ساتھ بحث ہو رہی تھی جس پر میں نے اپنی ماں اور بہن کے سامنے کہا کہ "یہ میری طرف سے فارغ ہے"۔  مجھے یاد نہیں کہ کتنی بار یہ الفاظ کہے، اس واقعہ کو چھ ماہ ہو چکے ہیں ، اب میں گہرائی  سے سوچ رہا ہوں کہ کہیں اس سے طلاق تو نہیں ہوگئی؟

دوسری بات یہ پوچھنی ہے کہ میری ایک کلیک ہے، جس سے میں بہت محبت کرتا ہوں اور ہم شادی کرنا چاہتے ہیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ وہ کہتی ہے کہ پہلی بیوی کو طلاق دے دوں، لیکن میں ایسا نہیں کرنا چاہتا کیوں کہ اسے طلاق دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ میں اپنے بچوں کو بھی چھوڑ دوں جب کہ میں اپنے بچوں کو چھوڑنا نہیں چاہتا، میں کافی پریشانی کا شکار ہوں برائے کرم میری راہ نمائی فرمائیں!

جواب

1۔ صورتِ مسئولہ میں اگر سائل نے اپنی بیوی کو طلاق کی نیت سے " یہ میری طرف سے فارغ ہے" کہا تھا تو اس سے ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی ہے، رجوع جائز نہیں، البتہ باہمی رضامندی سے تجدیدِ نکاح کرنا جائز ہوگا، اور چوں کہ مذکورہ واقعہ چھ ماہ قبل ہوا ہے اس وجہ سے غالب یہی ہے کہ عدت مکمل ہوچکی ہے لہٰذا تجدیدِ نکاح کے بغیر میاں بیوی کی حیثیت سے رہنا جائز نہ ہوگا۔ 

تاہم اگر سائل نے طلاق کی نیت سے مذکورہ الفاظ نہیں کہے تھے تو ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، اور دونوں کا نکاح بدستور قائم رہے گا۔

اگر لفظ فارغ سے طلاق کی نیت نہ تھی مگر طلاق کی گفتگو کے وقت یہ الفاظ ادا کیے تھے توپھر بھی ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی ہے۔

2۔ اگر آپ دونوں بیویوں کے درمیان نان و نفقہ رہائش کی فراہمی لباس و شب باشی و دیگر تمام معاملات میں برابری کرنے کی طاقت رکھتے ہوں تو اس صورت میں آپ کے لیے دوسرے نکاح کی اجازت ہوگی،  لیکن دوسری شادی جس خاتون سے کرنا چاہتے ہیں اس کا پہلی بیوی چھوڑنے کا مطالبہ کرنا شرعاً حلال نہیں، مناسب  طریقے سے شرعی حدود میں اسے سابقہ بیوی کی موجودگی میں نکاح پر آمادہ کریں۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔ جیساکہ صحیح البخاری و صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے:

"عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ : (لاَ يَحِلُّ لاِمْرَأَةٍ تَسْأَلُ طَلاَقَ أُخْتِهَا لِتَسْتَفْرِغَ صَحْفَتَهَا ، فَإِنَّمَا لَهَا مَا قُدِّرَ لَهَا". رواه البخاري ( 4857 ) -واللفظ له - ومسلم ( 1413 )
 ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی عورت کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنی بہن (سوکن) کی طلاق کا مطالبہ کرے ۔۔۔"" الخ

اگر وہ اس پر آمادہ نہیں ہوتی، یا دوسرے نکاح کی صورت میں دونوں میں برابری قائم نہ رکھنے کا اندیشہ ہے تو آپ کے لیے دوسرے نکاح کی اجازت نہیں ہوگی، اور آپ کے لیے اجنبیہ لڑکی سے تعلق رکھنا بھی شرعاً درست نہیں ہوگا، ان حالات میں آپ کے لیے بہتر ہے کہ کسی قریبی مستند متبعِ سنت عالمِ دین سے اصلاح و مشورے کا تعلق قائم رکھیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200452

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں