بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیع عینہ کا حکم


سوال

 عمرو زید کے پاس جاتا ہے کہ مجھے 5لاکھ بطور قرض کے دے دو ، زید کہتا ہے کہ میرے پاس یہ گاڑی ہے 5لاکھ کی، تم چوں کہ قرض کے طور پر لے رہے ہو تو 10 لاکھ کی لے جاؤ،مجھے سال بعد 10 لاکھ دے دینا آگے اس کو بیچ کر 5 لاکھ لے لو۔  تمام ایگری منٹ تحریر ہوجاتا ہے، جب وہ گاڑی لے کر مارکیٹ جاتا ہے تو اس کی قیمت 3 لاکھ لگتی ہے، عمرو پھر زید کے پاس آتا ہے، اس کے مجھے 3 لاکھ ملتے ہیں جب کہ مجھے ضرورت ہیں 5لاکھ، اس وقت زید کہتا ہے کہ یہ گاڑی پھر مجھے 5لاکھ کی فروخت کر دو، عمرو وہ گاڑی زید کو 5لاکھ کی فروخت کردیتا ہے، زید اس کو 5لاکھ نقد ادا کردیتا ہے۔  اور پھر تمام ایگریمنٹ زید کے نام تحریر ہوجاتا ہے۔ کیا اس طرح کرنا جائز ہے یا نہیں؟ مسئلہ کی دونوں صورتوں پر تفصیل سے روشنی ڈالیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جو صورت آپ نے بتائی ہے اسے شریعت کی اصطلاح میں ’’بیع عینہ‘‘  کہتے ہیں جوکہ حرام ہے، اور سود خوری کا ہی ایک راستہ ہے، اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے عقد کو رسوائی اور ذلت کا سبب قرار دیا ہے، جیسا کہ ’’سنن ابی داؤد‘‘ میں بروایت حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان منقول ہے کہ جب تک تم بیع عینہ کرتے رہوگے اور جانوروں کی دیکھ بھال میں لگے رہوگے اور زراعت میں گم ہوجاؤ گے اور جہاد چھوڑ دوگے تو اللہ تم پر ذلت و رسوائی مسلط کردے گا، یہاں تک کہ تم دوبارہ دین کی طرف نہ لوٹ آؤ۔

’’عن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: إذا تبايعتهم العينة، و أخذتم أذناب البقر، و رضيتم بالزرع، و تركتم الجهاد، سلط الله عليكم الذلة، لا ينزعه حتي ترجعوا إلی دينكم‘‘. (رقم الحديث: ٣٤٦٢)

  لہذا اگر اس طرح کا عقد کرلیا ہے تو اسے فوری طور پر ختم کر دینا چاہیے اور اللہ رب العزت سے اپنے اس عمل پر سچے دل سے فوری طور پر توبہ کرنا ضروری ہے۔  فتاوی شامی میں ہے:

’’(قَوْلُهُ: فِي بَيْعِ الْعِينَةِ) اخْتَلَفَ الْمَشَايِخُ فِي تَفْسِيرِ الْعِينَةِ الَّتِي وَرَدَ النَّهْيُ عَنْهَا. قَالَ بَعْضُهُمْ: تَفْسِيرُهَا أَنْ يَأْتِيَ الرَّجُلُ الْمُحْتَاجُ إلَى آخَرَ وَيَسْتَقْرِضَهُ عَشَرَةَ دَرَاهِمَ وَلَايَرْغَبُ الْمُقْرِضُ فِي الْإِقْرَاضِ طَمَعًا فِي فَضْلٍ لَا يَنَالُهُ بِالْقَرْضِ، فَيَقُولُ: لَا أُقْرِضُك، وَلَكِنْ أَبِيعُك هَذَا الثَّوْبَ إنْ شِئْت بِاثْنَيْ عَشَرَ دِرْهَمًا، وَقِيمَتُهُ فِي السُّوقِ عَشَرَةٌ، لِيَبِيعَهُ فِي السُّوقِ بِعَشَرَةٍ، فَيَرْضَى بِهِ الْمُسْتَقْرِضُ فَيَبِيعُهُ كَذَلِكَ، فَيَحْصُلُ لِرَبِّ الثَّوْبِ دِرْهَمًا، وَلِلْمُشْتَرِي قَرْضُ عَشَرَةٍ. وَقَالَ بَعْضُهُمْ: هِيَ أَنْ يُدْخِلَا بَيْنَهُمَا ثَالِثًا، فَيَبِيعُ الْمُقْرِضُ ثَوْبَهُ مِنْ الْمُسْتَقْرِضِ بِاثْنَيْ عَشَرَ دِرْهَمًا، وَيُسْلِمُهُ إلَيْهِ ثُمَّ يَبِيعُهُ الْمُسْتَقْرِضُ مِنْ الثَّالِثِ بِعَشَرَةٍ وَيُسْلِمُهُ إلَيْهِ، ثُمَّ يَبِيعُهُ الثَّالِثُ مِنْ صَاحِبِهِ وَهُوَ الْمُقْرِضُ بِعَشَرَةٍ وَيُسْلِمُهُ إلَيْهِ، وَيَأْخُذُ مِنْهُ الْعَشَرَةَ وَيَدْفَعُهَا لِلْمُسْتَقْرِضِ فَيَحْصُلَ لِلْمُسْتَقْرِضِ عَشَرَةٌ وَلِصَاحِبِ الثَّوْبِ عَلَيْهِ اثْنَا عَشَرَ دِرْهَمًا، كَذَا فِي الْمُحِيطِ، ... وَقَالَ مُحَمَّدٌ: هَذَا الْبَيْعُ فِي قَلْبِي كَأَمْثَالِ الْجِبَالِ ذَمِيمٌ اخْتَرَعَهُ أَكَلَةُ الرِّبَا. وَقَالَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ: «إذَا تَبَايَعْتُمْ بِالْعِينَةِ وَاتَّبَعْتُمْ أَذْنَابَ الْبَقَرِ ذَلَلْتُمْ وَظَهَرَ عَلَيْكُمْ عَدُوُّكُمْ»‘‘. (٥/٢٧٣)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200607

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں