بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بروقت میراث تقسیم نہ کرنا


سوال

والدکاانتقال 2009میں ہوگیاتھا،جس مکان میں والدرہتے تھے ان کے ساتھ والدہ اوردو بھائی بھی رہائش پذیرتھے،اوراب بھی ہیں،پانچ بہنیں جن کی شادی والد کی زندگی میں ہوگئی تھی،وہ اپنے گھروں میں رہتی ہیں،جن میں سے کچھ مالی طورپراچھی ہیں اورکچھ کمزورہیں،والدنے ترکہ میں گھرچھوڑاہے جس میں والدہ اور دوبھائی رہتے ہیں،والدہ وراثت والے مکان کی تقسیم اپنی زندگی میں نہیں چاہتیں،جب کہ ایک بہن کاانتقال چند ماہ پہلے ہوگیاہے،والدہ کے تمام اخراجات میں اٹھاتاہوں،والدہ کے ساتھ رہنے والے بھائیوں پرکوئی ذمہ داری نہیں ہے،میراسوال یہ ہے کہ وراثت کی تقسیم کاکیاحکم ہے؟

دوسراسوال یہ کہ بروقت وراثت تقسیم نہ ہونے سے کوئی گناہ تونہیں؟والدہ کاکہناہے کہ :لوگ کیاکہیں گے، اس وجہ سے وراثت تقسیم نہیں ہونے دے رہیں،جب کہ ایک بیٹی وراثت لیے بغیردنیاسے رخصت ہوگئی ہیں۔

جواب

شریعت کاحکم یہ ہے کہ: مورِث کے انتقال کے بعد (اگر اس پر قرض وغیرہ ہو تو اسے ادا کرنے اور اس نے جائز مالی وصیت کی ہو تو اسے نافذ کرنے کے بعد)ورثاء میں جلدازجلدمیراث تقسیم کردی جائے؛ کیوں کہ متروکہ مال میں ورثاء کا حق ہوتاہے،ترکہ کوتقسیم ہونے سے روکنااوریہ سمجھناکہ وراثت کی تقسیم کی وجہ سے لوگ طعنہ دیں گے ،سنگین غلطی ہے، شریعت کے احکامات کے مقابلہ میں رسم ورواج اورلوگوں کی من گھڑت باتوں کاکوئی اعتبارنہیں۔

لہذا  آپ  کی والدہ کاعمل درست نہیں ہے،بہتریہ ہے کہ انہیں سمجھایاجائے کہ میراث کی جلد تقسیم (خصوصاًً جب کہ ورثاء تقسیم کامطالبہ بھی کررہے ہوں ) شرعی حکم ہےاوراس حکم کی بجاآوری لازم ہے۔ورثاء کے مطالبے کے باوجودکسی ایک وارث کامیراث تقسیم نہ ہونے دیناشرعی اعتبارسے ناجائز اورظلم ہے،جس کاگناہ تقسیم نہ کرنے والوں پر ہوگا۔

نیزتمام ورثاء کی اجازت اوران کے اتفاق کے بغیرکسی کامتروکہ مکان سےکلی طورپر استفادہ کرنابھی شرعاً درست نہیں ہے۔

مرحومہ بہن کوبھی والدکے متروکہ مکان میں سے حصہ ملے گاجوا س کے وارثوں میں تقسیم ہوگا،باقی ورثاء کے درمیان شرعی حصص کی تقسیم تمام ورثاء کی تعدادبتاکرمعلوم کی جاسکتی ہے ۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143801200040

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں