بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

باکسنگ کے کھیل کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام بوکسنگ کے کھیل کے بارے میں، آیا یہ جائز ہے یا نا جائز؟ نیز کیا یہ کھیل صرف چہرے پر مارنے کی وجہ سےیا مطلقاً مارنے کی وجہ سے ناجائز ہے؟

 اگر مطلقاً مارنے کی وجہ سے ناجائز ہے تو پھر کراٹے کیوں جائز ہے، اس میں بھی تو مار ہوتی ہے؟

جواب

موجودہ دور میں باکسنگ( مُکابازی) کے  نام سے جو مقابلے منعقد ہوتے ہیں، چوں کہ ان مقابلوں میں مدمقابل کو شدید سے شدید تکلیف اور جسمانی اذیت پہنچانے کو کھیل کاحصہ اور جائز سمجھاجاتاہے،نیز فریقین میں سےکسی کے شدید نقصان کی صورت میں بھی دوسرے کو موردالزام نہیں ٹھہرایاجاسکتا،ان مقابلوں اورکھیلوں میں حصے لینے والے جسمانی اعضاء سے محروم نیز بسااوقات موت سے بھی دوچارہوتے ہیں، لہذا باکسنگ کاکھیل اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں سے ہلاکت اور نقصان میں ڈالنے کے مترادف ہے، نیز اس کھیل میں دیگر کئی شرعی مفاسد بھی پائے جاتے ہیں، مثلاً: ٹی وی پر تشہیر،غیرشرعی لباس پہننا وغیرہ ۔اس لیے شریعت میں اس کھیل کی اجازت نہیں ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

﴿ وَلاَ تُلْقُوْا بِأیْدِیْکُمْ اِلیَ التَّهْلُکَةِ ﴾ (البقرة:195)

ترجمہ: اور تم اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں مت ڈالو۔

کراٹے کھیلنے کاحکم بھی یہی ہے کہ اگر اس سے جسمانی نقصان کااندیشہ ہویاناجائز امور کاارتکاب کرناپڑتاہوتو جائز نہ ہوگا،البتہ شرعی حدود وقیود میں رہتے ہوئے بطورِ ورزش کے کراٹے کھیلنا درست ہے۔شہیدِاسلام مولانامحمدیوسف لدھیانوی شہیدرحمہ اللہ لکھتے ہیں:

''باقی جہاں تک کراٹے سیکھنے کا تعلق ہے، یہ اگر کسی اچھے مقصد کے لیے ہو تو جائز ہے، بشرطیکہ اس کھیل کے دوران فرائضِ شرعیہ کو غارت نہ کیا جاتا ہو، ورنہ ناجائز ہے''۔

چہرے پرمارنے سے احادیث مبارکہ میں منع فرمایاگیاہے،لہذا جائز کھیلوں میں بھی چہرے پر مارنے کی اجازت نہیں ہے۔چناں چہ ''مسلم شریف''  میں ہے:

'' حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی آدمی اپنے بھائی سے لڑے تو وہ چہرے پر مارنے سے بچے''۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200893

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں