بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک مسجد کا سامان دوسری میں منتقل کرنا


سوال

اندرون ایک دیہات ہے جس میں تقریباً 12 گھر مسلمانوں کے تھے،  انہوں نے ایک مسجد بھی بنائی تھی،  اب وہ گھر وہاں قریباً ایک کلومیٹریاآدھاکلومیٹر دور منتقل ہو گئے ہیں،  اب مسجد کا کیا حکم ہے؟ وہ اپنے گھروں کے قریب مسجد بنانا چاہتے ہیں،  یہ جائز ہو گا؟ اور اس مسجد کو یوں ہی چھوڑ دینا جب کہ اس کے آباد ہونے کے امکانات نہیں، درست ہے یا اس مسجدکے سامان کودوسری مسجد میں لگانے کے لیے نکال لیا جائے تو کیا شرعاً اس کی گنجائش ہے؟  جو بھی حکم ہو بیان کر کے عنداللہ ماجور ہوں !

جواب

مسجد ایک دفعہ بن جانے کے بعد ہمیشہ کے لیے مسجد ہی رہتی ہے، اس جگہ کو کسی اور مقصد  کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا، خواہ اس میں لوگ نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں،  البتہ مسجد کے گرد باڑھ  لگادیں؛ تاکہ اس کی بے حرمتی نہ ہو۔

جب اس مسجد کے  پاس سے تمام آبادی دوسری جگہ منتقل ہوچکی ہے تو  دوسری جگہ مسجد بنالیں ۔اور اس صورت جب کہ وہاں اس سامان کی ضرورت نہیں تو پہلی مسجد کاسامان دوسر ی مسجد میں لاکر استعمال کیا جاسکتا ہے۔

" ونقل في الذخیرة عن شمس الأئمة الحلواني أنه سئل عن مسجد أو حوض خرب، ولا یحتاج إلیه لتفرق الناس عنه، هل للقاضي أن یصرف أوقافه إلی مسجد أو حوض آخر؟ فقال: نعم". (رد المحتار، کتاب الوقف / مطلب فیما لو خرب المسجد أو غیرہ ۴؍۳۵۹ کراچی)

"ولو خرب أحد المسجدین في قریة واحدة، فللقاضي صرف خشبه إلی عمارة المسجد الآخر إذا لم یعلم بانیه ولا وارثه، وإن علم یصرفها هو بنفسه". (البحر الرائق، کتاب الوقف / فصل في أحکام المساجد ۵؍۴۲۴) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200144

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں