بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ایزی پیسہ اکاؤنٹ سے بل ادا کرنے یا رقم کی منتقلی پر ملنے والے نفع کا حکم


سوال

درج ذیل سہولتوں سے استفادے کا کیا حکم ہے؟

 1۔ایزی پیسہ ریٹیلر اکاؤنٹ کے ذریعہ بل کی ادائیگی کرنے پر ساڑے چار روپے اکاؤنٹ میں آتے ہیں۔

2۔ایزی پیسہ اکاؤنٹ سے اپنے نمبر پر لوڈ کرنے سے ایک ہزار منٹس۔ایس ایم ایس۔انٹرنیٹ دیتے ہیں۔مثلاً اپنے نمبر پر اپنے ایزی پیسہ اکاؤنٹ سے سو روپے سے زائد لوڈ کرنے پر ہزار منٹس۔ ایس ایم ایس اور انٹرنیٹ دیتے ہیں۔

جواب

ایزی پیسہ اکاؤنٹ  کھلوانے کا مقصد رقم کی منتقلی ہو یا موبائل میں ری چارج وغیرہ کرنا، اگر اس اکاؤنٹ کھلوانے  یا اس میں رقم رکھنے پر  کمپنی کوئی مشروط نفع (مثلاً: فری منٹس، انٹرنیٹ ایم بی ، میسج وغیرہ) نہ دیتی ہو تو اس حد تک اس اکاؤنٹ کااستعمال درست ہوگا،رقم منتقلی کی صورت میں اگر کمپنی صارف سے کچھ رقم (بطور سروس چارجز) وصول کرے تو یہ بھی درست ہوگا، اور ایسی صورت میں اگر ایزی پیسہ اکاؤنٹ سے اپنے بجلی، فون وغیرہ کے بل کی ادائیگی کرنے پر اکاؤنٹ میں کچھ پیسے اکاؤنٹ میں آتے ہوں یا  اپنے نمبر یا  کسی دوسرے کے نمبر پر لوڈ کرنے سے کمپنی جو فری منٹس، میسج  اور انٹر نیٹ کی ایم بی وغیرہ دے تو اس کے استعمال کی بھی گنجائش ہوگی۔

لیکن  اگر  کمپنی  اکاؤنٹ ہولڈر کو اس مخصوص رقم جمع کرانے کی شرط پر  یومیہ فری منٹس اور میسیجز وغیرہ کی سہولت فراہم کرتی ہے تو چوں کہ ایزی پیسہ اکاؤنٹ میں رقم رکھوانا درحقیقت  قرض ہے، اور  قرض دینا تو فی نفسہ جائز ہے، لیکن کمپنی اس پر جو  مشروط منافع دیتی  ہے، یہ  شرعاً ناجائز ہے؛ اس لیے کہ قرض پر شرط لگا کر نفع  کے لین دین  کو نبی کریم ﷺ نے سود قرار دیا ہے۔ (مصنف بن أبی شیبہ، رقم:۲۰۶۹۰ )اور   چوں کہ اس صورت میں  مذکورہ اکاؤنٹ کھلوانا ناجائز معاملے کےساتھ مشروط ہے ؛ اس لیے یہ اکاؤنٹ کھلوانا یا کھولنا جائز نہیں ہوگا۔

واضح رہے کہ عموماً ''ایزی پیسہ اکاؤنٹ'' دوسری صورت کا ہوتاہے ؛ لہٰذا ایسا اکاؤنٹ کھلوانا  جائز نہیں  ہوگا، البتہ اگر کمپنی پہلی صورت کے مطابق '' ایزی پیسہ اکاؤنٹ'' کی سہولت دے تو ایسا اکاؤنٹ کھولنے اور اس کے استعمال کی اجازت ہوگی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201406

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں