ایزی پیسہ اکاؤنٹ میں1000 کا بیلنس رکھنے پر جوفری منٹ وغیرہ دیتے ہیں، کیا یہ واقعی ربوا کے زمرے میں آتے ہیں؟ دلائل کے ساتھ بتائیں، ہمارے کچھ ساتھی ہیں وہ یہ نہیں مانتے۔
واضح رہے کہ ایزی پیسہ اکاؤنٹ میں جمع کردہ رقم قرض ہے، اور احادیث کی روشنی میں یہ ضابطہ بھی مسلم ہے کہ قرض دے کر اس سے کسی بھی قسم کا نفع اٹھانا جائز نہیں ہے، بعض احادیث میں اسے صراحتاً ربا کہا گیا ہے اور بعض صحیح احادیث میں اسے ربا میں شامل کیا گیا ہے؛ اس لیے اکاؤنٹ ہولڈر کا قرض کے بدلے کمپنی کی طرف سے دی جانے والی سہولیات وصول کرنا اور ان کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔
"عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِيهِ أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَلَقِيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: أَلَا تَجِيءُ فَأُطْعِمَكَ سَوِيقًا وَتَمْرًا وَتَدْخُلَ فِي بَيْتٍ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّكَ بِأَرْضٍ الرِّبَا بِهَا فَاشٍ، إِذَا كَانَ لَكَ عَلَى رَجُلٍ حَقٌّ فَأَهْدَى إِلَيْكَ حِمْلَ تِبْنٍ أَوْ حِمْلَ شَعِيرٍ أَوْ حِمْلَ قَتٍّ فَلَا تَأْخُذْهُ فَإِنَّهُ رِبًا ". ( صحیح البخاری 3814)
ترجمہ: سعید بن ابی بردہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں مدینہ منورہ حاضرہوا تو میں نے عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی ، انہوں نے کہا: کیا آپ (ہمارے پاس) آئیں گے تاکہ میں آپ کو ستواورکھجورکھلاؤں اورآپ ایک ( باعظمت ) مکان میں داخل ہوں (جس میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے گئے تھے) پھر آپ نے فرمایا: تمہارا قیام ایک ایسے ملک میں ہے جہاں سودی معاملات بہت عام ہیں، اگر تمہارا کسی شخص پر کوئی حق ہو اورپھروہ تمہیں ایک تنکے یاجوکے ایک دانے یا ایک گھاس کے برابربھی ہدیہ دے تو اسے قبول نہ کرنا؛ کیوں کہ وہ بھی سود ہے۔
مصنف ابن أبي شيبة (4/ 327):
"عن إبراهيم، قال: «كل قرض جر منفعة، فهو ربا»". فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144008201506
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن