بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اولاد کے درمیان ھبہ میں برابری


سوال

1۔میرے والد کی دوکنال جگہ تھی، اس میں سے ایک کنال میرے نام کردی، میرے دوسرے بہن بھائیوں سے پوچھے بغیر کیا اس طرح ٹھیک ہے؟

 2۔  اگر کوئی ڈائریکٹ جگہ خرید کر  اپنے بیٹوں کے نام کر دے  تو کیا اس میں بچیوں کا حصہ بنتا ہے کہ نہیں؟

جواب

1۔ اگر آپ کے والد صاحب نے زمین صرف آپ کے نام کی ہے (جیساکہ بعض اوقات قانونی تقاضوں یا دیگر مصالح کے پیش نظر کردیا جاتاہے) مالکانہ حقوق کے ساتھ قبضہ نہیں دیا تو صرف نام کرنے سے وہ آپ کی ملکیت نہیں ہوگی، بلکہ وہ والد صاحب کی ملکیت ہوگی، وہ زندگی میں جس طرح چاہیں اس میں جائز تصرف کرسکتے ہیں، اور ان کی وفات کی صورت میں مکمل زمین ان کی میراث شمار ہوگی۔

اور اگر والد صاحب نے مالکانہ حقوق کے ساتھ زمین پر قبضہ دے دیا تو مذکورہ زمین آپ کی ملکیت میں آجائے گی، لیکن زندگی میں اولاد کو جائے داد دینے کے حوالے سے شرعی احکام کی تفصیل درج ذیل ہے: 

والد اپنی خوشی سے اپنی جائے داد میں سے اگر  اولاد کو کچھ دے تو شرعاً یہ معاملہ ہبہ (گفٹ) کہلاتا ہے ، اور اولاد کو ہبہ کرنے میں میں شریعت کا حکم یہ ہے کہ سب کے درمیان برابری اور انصاف کا پہلو اختیار کرے ،رسول اللہ ﷺ نے اولاد کے درمیان ہبہ کرنے میں برابری کرنے کا حکم دیا ، جیساکہ نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کی  روایت میں ہے:

"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»". (مشکاة المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)

ترجمہ:حضرت نعمان ابن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔(مظاہر حق، 3/193، باب العطایا، ط: دارالاشاعت)

البتہ  کسی بیٹے یا  بیٹی کو  کسی معقول شرعی وجہ کی بنا پر  دوسروں کی بہ نسبت   کچھ زیادہ  دینا چاہے تو دےسکتا ہے،  یعنی کسی کی دین داری یا یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر اس کو  دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دے تو اس کی اجازت ہے، لیکن بعض کو دینا اور بعض کو محروم رکھنا یا بلا وجہ کم زیادہ دینا یہ شرعاً سخت گناہ ہے، اس سے بچنا لازم ہے۔

لہٰذا اگر آپ کے والد صاحب کی گنجائش ہے کہ وہ آپ کی طرح دیگر بیٹے بیٹیوں کو جائے داد میں سے آپ کے برابر یا شرعاً مقبول ومعقول حصہ دے سکتے ہیں تو مذکورہ زمین آپ کے پاس رہنے دیں اور دیگر اولاد کو بھی حصہ دے دیں۔ لیکن اگر دوسرے بچوں کو اتنی جائے داد دینے کی استطاعت نہیں ہے، تو آپ اور آپ کے والد صاحب کو چاہیے کہ اس ہبہ (گفٹ) کو واپس کریں۔ پھر اگر زندگی میں ہبہ کرنا چاہتے ہیں تو شرعی حکم کے مطابق تقسیم کریں۔

2۔ اس کا حکم ماقبل والا ہے، اور اولاد میں بیٹے بیٹیاں دونوں شامل ہیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200261

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں