بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اولاد کا نفقہ کس عمر تک لازم ہے؟


سوال

میاں بیوی میں طلاق کے بعد پاکستان کی عدالت نے بچے کا ماہانہ خرچ باندھ دیا جو بچے کا والد بلاناغہ ادا کررہا ہے۔ عدالت 18 سال تک بچے کے خرچے کے بارے میں پابند بلکہ مجبور کرتی ہے جب کہ شرعاً بلوغت کے بعد یا ھجری سال کے اعتبار سے عمر 15 سال ہو جانے کے بعد باپ کو شاید پابند نہیں کیا جاسکتا،  آپ یہ بتائیں کہ:

1۔ باپ کب تک لازماً خرچہ دینے کا پابند ہے؟

2۔ کیا عدالت کا بلوغت کی عمر 18 کو قرار دے کر یوں مجبور کرنا خلافِ شرع عمل ہے یا نہیں؟  

3۔ بچے کے والد کو ایسی صورت حال میں کیا کرنا چاہیے؟

جواب

۱۔صورتِ مسئولہ میں  اگر بچے کے پاس مال نہ ہو تو جب تک وہ کمانے کے قابل نہیں ہوجائے اس کانفقہ باپ کے ذمہ ہے ، شرعاً بلوغت کی قید نہیں۔

۲۔خلافِ شرع ہے۔

۳۔جب تک شرعاً بچے کا نفقہ اس پر لازم ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا ،اس وقت تک خرچ اداکرے اور اس کے بعد اگر کوئی جائز تدبیر کرسکتا ہو تو جائز ہے۔

واضح رہے کہ میاں بیوی چاہے ساتھ ہوں یا ان کے درمیان جدائی ہوگئی ہو، بہر صورت نابالغ بچوں کے نفقہ کی ذمہ داری والد پر ہی ہے، اور بلوغت کے بعد جب تک اولاد کمانے کے قابل نہ ہو ان کے نفقہ کی ذمہ داری شرعاً  والد پر ہی ہوتی ہے، البتہ  میاں بیوی کے درمیان جدائی کی صورت  میں قاضی وقت کی شرع ذمہ داری ہے کہ والد کی حیثیت کے مطابق بچوں کا نفقہ مقرر کرے، نیز لڑکا جب سات سال کا اور لڑکی جب نو سال کی ہوجائے تو اس صورت میں ان کی پروش کا شرعی حق والد کو ہے، مقررہ عمر مکمل ہوجانے کے بعد ماں کا بچے اپنے پاس رکھنا شرعاً درست نہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"نفقة الأولاد الصغار على الأب لايشاركه فيها أحد، كذا في الجوهرة النيرة". (الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ١/ ٥٦٠، ط: رشيدية)

وفيه أيضاً:

"و بعد الفطام يفرض القاضي نفقة الصغار على قدر طاقة الأب و تدفع إلى الأم حتي تنفق علي الأولاد، فإن لم تكن الأم ثقةً تدفع إلى غيرها لينفق على الولد". (١/ ٥٦١)

و فيه أيضاً:

"الذكور من الأولاد إذا بلغوا حد الكسب و لم يبلغوا في أنفسهم يدفعهم الأب إلى عمل ليكسبوا أو يؤاجرهم و ينفق عليهم من أجرتهم وكسبهم، و أما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهن في عمل أو خدمة، كذا في الخلاصة". (١/ ٥٦٢) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200234

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں