بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

انفلات ریح کا مریض طواف کے حق میں کب معذور شرعی ہوگا؟


سوال

 انفلاتِ ریح کا مریض طواف کے حق میں معذور شرعی کب سمجھا جاۓ گا؟

جواب

معذور شرعی بننے کے لیے معیار نماز ہی ہے، یعنی  اگر کسی شخص کو  انفلاتِ ریح کی بیماری اتنی زیادہ ہو کہ اس کو اتنا وقت نہ ملے کہ  وہ اس میں وضو کرکے ریح خارج ہوئے بغیر چار  رکعت نماز پڑھ سکے اور کسی نماز کا مکمل وقت اسی حالت میں گزر جائے تو ایسا شخص شرعاً معذر کے حکم میں ہوتا ہے نماز کے باب میں بھی اور طواف کے باب میں بھی، اور جو شخص نماز کے حق میں معذور نہ ہو وہ طواف کے حق میں بھی شرعاً معذور نہیں ہوگا۔

"فتاوی شامی" میں ہے:

"(وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة) بأن لا يجد في جميع وقتها زمناً يتوضأ ويصلي فيه خالياً عن الحدث (ولو حكماً)؛ لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرةً (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقةً)؛ لأنه الانقطاع الكامل. (وحكمه الوضوء) لا غسل ثوبه ونحوه (لكل فرض) اللام للوقت كما في : ﴿لدلوك الشمس﴾ [الإسراء: 78]  (ثم يصلي) به (فيه فرضاً ونفلاً) فدخل الواجب بالأولى، (فإذا خرج الوقت بطل)".(1/ 305،  کتاب الطہارۃ، مطلب فی احکام المعذور، ط: سعید)

"ارشاد الساری"  میں ہے:

"والجمهور على أن الطواف كالصلاة  في اعتبار الشرائط كلها إلامااستثني بفعله  عليه الصلاة والسلام من ترك الاستقبال وجواز المشي  ونحو ذلك". (ص:213، ط: الامدادیہ)۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200248

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں