بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ادارے کی جانب سے ملا ہوا پلاٹ اور خریدے ہوئے پلاٹ پر زکاۃ کا حکم


سوال

میرے  پاس دوپلاٹ ہیں،  ایک ادارے کی طرف سے ملا ہےاور ایک میں نے قسطوں پر خریداہےجس کی کچھ اقساط بقایا ہیں ،نیت یہ ہے کہ دونوں پلاٹ بیچ کر گھر بناؤں گا ، سال گزرنے کے بعد اس پر زکاۃ کاکیا حکم ہے؟

جواب

بیچنے کی نیت سے جو پلاٹ خریدا ہے اس کی قیمتِ فروخت پر زکاۃ واجب ہے۔

البتہ اگرادارے کی طرف سے  پلاٹ بغیر عوض کے ملا ہے تو بیچنے سے پہلے اس پر زکاۃ  نہیں،  تاہم جب اسے بیچ دیا  جائے اور سال کے اختتام  تک اس کی رقم یا رقم کا کچھ حصہ باقی ہے ، خرچ نہیں ہوا تو اس کی زکاۃ ادا کرنا لازم ہوگی۔

الدر المختار مع رد المحتار (2 / 273)

"( وما اشتراه لها ) أي للتجارة ( كان لها ) ؛ لمقارنة النية لعقد التجارة ···( وما ملكه بصنعة كهبة أو وصية أو نكاح أو خلع أو صلح عن قود ) قيد بالقود؛ لأن العبد للتجارة إذا قتله عبد خطأ ودفع به كان المدفوع للتجارة، خانية۔ و كذا كل ما قوبض به مال التجارة؛ فإنه يكون لها بلا نية، كما مر ( ونواه لها كان له عند الثاني، والأصح ) أنه ( لا ) يكون لها، بحر عن البدائع، وفي أول الأشباه: ولو قارنت النية ما ليس بدل مال بمال لا تصح على الصحيح۔

و في الرد:  (قوله : وما ملكه بصنعه الخ ) أي ما كان متوقفاً على قبوله، وليس مبادلة مال بمال، كهذه العقود إذا نوى عند العقد كونه للتجارة لا يصير لها على الأصح؛ لأن الهبة والصدقة والوصية ليست بمبادلة أصلاً، والمهر وبدل الخلع والصلح عن دم العمد مبادلة مال بغير مال، كما في البدائع۔

 قال في فتح القدير: والحاصل أن نية التجارة فيما يشتريه تصح بالإجماع، وفيما يرثه لا بالإجماع، وفيما يملكه بقبول عقد مما ذكر خلاف" اهفقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909202163

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں