بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

احتلام کے بعد سنت طریقہ غسل


سوال

احتلام کے بعد سنت طریقہ غسل کیا ہے؟

جواب

غسل کا مسنون طریقہ مختصراً یہ ہے کہ اولاً ہاتھ اور شرم گاہ دھوئے(خواہ اس وقت قضائے حاجت کی ہو یا نہیں)، پھر جسم پر اگر کوئی نجاست ہو تو اسے دھوکر پاک کرے، پھر پورا وضو کرے ، اسی درمیان منہ اور ناک میں اچھی طرح پانی ڈالے، اس کے بعد پورے بدن پر اس ترتیب سے پانی بہائے:  پہلے سرپر،  پھر دائیں کاندھے پر، پھر بائیں کاندھے پر۔  اور بدن کو رگڑ کر دھوئے، کہ جسم میں ایک بال کے برابر بھی کوئی حصہ خشک نہ رہنے پائے۔ مسنون طریقے کے مطابق غسل کرلیا جائے تو اس کے بعد وضو کی ضرورت نہیں ہے، رسول اللہ ﷺ غسل کے بعد وضو نہیں فرماتے تھے۔  ہاں غسل سے پہلے وضو کرنا مسنون ہے۔

"عن ابن عباس رضي اللّٰه عنهما عن خالته میمونة قالت: وضعت للنبي صلی اللّٰه علیه وسلم غسلاً یغتسل به من الجنابة، فأکفأ الإناء علی یده الیمنی، فغسلها مرتین أو ثلاثاً، ثم صب علی فرجه فغسل فرجه بشماله، ثم ضرب بیده الأرض فغسلها ثم تمضمض واستنشق وغسل وجهه ویدیه ثم صب علی رأسه وجسده، ثم تنحی ناحیة فغسل رجلیه". (سنن أبي داوٴد، کتاب الطهارة، باب في الغسل من الغسل ۱/۳۲رقم: ۲۴۵دار الفکر بیروت، فتح الباري ۱/۴۸۶رقم: ۲۵۷بیروت)

"عن جمیع بن عمیر وفیه فقالت عائشة رضي اللّٰه تعالیٰ عنها: کان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم یتوضأ وضوئه للصلاة ثم یفیض علی رأسه ثلاث مرار". (سنن أبي داوٴد، کتاب الطہارة، باب الغسل من الجنابة ۱/۳۲رقم: ۲۴۱دار الفکر بیروت)

"وهي أن یغسل یدیه إلی الرسغ ثلاثاً ثم فرجه ویزیل النجاسة إن کانت علی بدنه ثم یتوضأ وضوئه للصلاة إلا رجلیه، هکذا في الملتقط". (الفتاویٰ الهندیة ۱/۱۴)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200792

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں