بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اباضیہ فرقے کا حکم


سوال

میں مسقط عمان میں رہتا اور کام کرتا ہوں۔ عمان کی ستر فی صد آبادی زیادہ تر ’’الاباضیہ‘‘  کی پیروی کرتی ہے یا اپنے آپ کو  ’’الاباضیہ‘‘ کہتے ہیں۔ان کا نماز ادا کرنے کا انداز مختلف ہے، یعنی وہ نماز میں تکبیر کے لیے  ہاتھ نہیں اٹھاتے اور نماز ختم کرتے وقت ایک بار السلام علیکم کہتے ہیں اور دونوں طرف سلام پھیر لیتے ہیں۔ کیا عبادی امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے؟ کیوں کہ یہاں پاکستان، بنگلہ دیش، انڈیا اور دیگر ممالک کے لوگ عبادی امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں۔براہِ مہربانی عبادی عقائد کے بارے میں ہماری راہ نمائی فرمائیں، اور کیا ان کے پیچھے نماز ادا کرنا جائز ہے یا ہم اپنی نمازیں علیحدہ پڑھیں؟

جواب

فرقہ ’’اباضیہ‘‘ کے بارے میں علماءِ محققین کا فیصلہ ہے کہ وہ خوارج کا ایک فرقہ ہے جن کے عقائد قرآن وحدیث اور اہل السنۃ والجماعۃ کے خلاف ہے، مثلاً: ان کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآنِ پاک جو اللہ کا کلام ہے، وہ مخلوق ہے ۔  قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا دیدار نہیں ہوگا۔ اسی طرح ان کا عقیدہ ہے کہ ایک مسلمان گناہوں کی وجہ سے جب دوزخ میں جائے گا تو پھر وہ دوبارہ جنت میں نہیں جائے گا، لہٰذا یہ فرقہ اہل السنۃ والجماعۃ سے خارج ہے ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔واضح رہے کہ ان کے پیچھے نما زنہ ہونے کی وجہ ان کے مذکورہ عقائد ہیں نہ کہ نماز ادا کرنے کا طریقہ اختلاف ۔اس لیے  کہ  عقائد کا مسئلہ اعمال کے مقابلے میں زیادہ سخت ہے۔

   حضرت مولانا مفتی رشیداحمد صاحب لدھیانوی رحمہ اللہ نے ایک سوال کے جواب میں تحریر کیا ہے:

”عبداللہ بن اباض کی جانب منسوب جو فرقہٴ اباضیہ ہے اورجو خوارج ہی کی شاخ ہے، ان کے عقائد کتابوں میں ملتے ہیں، اگر یہ فرقہ بعینہ وہی ہے یا ان کے عقائد ان کے مطابق ہیں تو ان کے پیچھے نماز نہیں ہوتی؛ اس لیے ان کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے“۔ (احسن الفتاویٰ:۱/۱۹۸)

 "نفائس الفقہ ۴/۴۲۰"  میں ہے:

          ”عمان کے اباضیہ دراصل خوارج ہیں؛ لہٰذا ان کے پیچھے نماز درست نہ ہوگی، اگرچہ یہ بہ نسبت دیگر فرق خوارج کے معتدل ہیں، تاہم جو بنیادی عقائد خوارج کے ہیں، ان میں یہ بھی شامل ہیں۔“ فقط واللہ اعلم

 

 


فتوی نمبر : 144004200233

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں