بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آفس میں ساتھ کام کرنے والی خواتین سے سلام و کلام کرنا


سوال

میں ایک ادارہ میں کام کرتا ہوں جہاں مرد و عورت ایک ساتھ کام کرتے ہیں، کیا اس صورتِ حال کے پیشِ نظر کوئی عورت اگر کسی غیر مرد سے سلام کرے تو ممانعت تو نہیں؟ اور اگر نہ کرے تو کوئی گناہ تو نہیں ہے؟

جواب

شریعتِ  مطہرہ نے اسلامی معاشرے کی بنیاد حیا و پاک دامنی پر رکھی ہے، جس کی وجہ سے مرد و عورت کے اختلاط عام سے منع کیا ہے، لہذا مذکورہ ادارہ میں مرد و خواتین کو اختلاط سے بچنا چاہیے، کام کے حوالے سے بقدرِ ضرورت بات کی اگرچہ گنجائش ہے، تاہم لہجے میں نرمی، لجاجت ، و دوستانہ انداز اپنانے کی اجازت نہیں۔ نیز پردے کا اہتمام بھی ضروری ہے. جہاں تک بات سلام کی ہے، تو اگر جوان خاتون کولیگ ہوں تو وہ سلام سے  اجتناب کریں، اور مرد سلام کرے تو آہستہ سے جواب دے دے. ایسے موقع پر سلام نہ کرنے سے خاتون گناہ گار نہیں ہوگی. فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200483

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں