بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دومرتبہ بیوی کو آزاد کہنے کے بعد لفظ طلاق کہنا


سوال

ایک شخص نے اپنی بیوی کو دو مرتبہ کہا کہ تو آزاد ہے، پھر تیسر ی مرتبہ کہا کہ تجھے طلاق ہے، تو اس صورت میں کتنی طلاق واقع ہو گی؟ جب کہ اس مسئلہ کے بارے میں فتاوی محمودیہ، نجم الفتاوی اور احسن الفتاوی والے تین مرتبہ لفظِ آزاد کہنے سے تین طلاق لکھتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ لفظِ آزاد وقوعِ طلاق کے اعتبار سے صریح ہے، یعنی لفظ آزاد سے دی گئی طلاق نیت کے بغیر ہی  واقع ہو جائے گی، جیسا کہ صریح کا حکم ہے، جب کہ لحوق کے اعتبار سے بائن ہے، یعنی جس طرح بائن بائن کو لاحق نہیں ہوتی، اسی طرح لفظِ آزاد سے دی گئی طلاق کسی بائن کو لاحق نہ ہو گی۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ شخص نے دو مرتبہ لفظ آزاد کہا تو پہلی مرتبہ کہے گئے لفظِ  آزاد سے ایک طلاقِ بائن واقع ہو گئی، پھر دوسری مرتبہ لفظِ آزاد کہنے سے کوئی طلاق واقع نہ ہوئی، پھر جب لفظِ طلاق سے طلاق دی تو اس سے دوسری طلاق واقع ہو گئی۔ خلاصہ یہ کہ مذکورہ مسئلہ میں مجموعی طور پر دو طلاقیں واقع ہوں گی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 247):
"(قوله: ما لم يستعمل إلا فيه) أي غالباً، كما يفيده كلام البحر. وعرفه في التحرير بما يثبت حكمه الشرعي بلا نية، وأراد بما اللفظ أو ما يقوم مقامه من الكتابة المستبينة أو الإشارة المفهومة فلا يقع بإلقاء ثلاثة أحجار إليها أو بأمرها بحلق شعرها وإن اعتقد الإلقاء والحلق طلاقاً كما قدمناه؛ لأن ركن الطلاق اللفظ أو ما يقوم مقامه مما ذكر، كما مر (قوله: ولو بالفارسية) فما لايستعمل فيها إلا في الطلاق فهو صريح يقع بلا نية"۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 252):
"(قوله: فيقع بلا نية؛ للعرف) أي فيكون صريحاً لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن؛ لأن الصريح قد يقع به البائن، كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحاً؛ لأنه صار فاشياً في العرف في استعماله في الطلاق، لايعرفون من صيغ الطلاق غيره، ولا يحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لايستعمل عرفاً إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك، فوجب اعتباره صريحاً، كما أفتى المتأخرون في "أنت علي حرام" بأنه طلاق بائن؛ للعرف بلا نية، مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية"۔
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200077

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں