بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

کیااسلام‘ جدید تعلیم کے خلاف ہے؟

کیااسلام‘ جدید تعلیم کے خلاف ہے؟

    موجودہ زمانے میں مغربی دانشور اسلا م کے خوبصورت چہرے کو بد نماثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے میں مصروف ہیں۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ کسی بھی طرح اسلام کوبدنام کریں، اسلام کا نام و نشان مٹا دیں۔ وہ ہر اس مہم کا حصہ بن جاتے ہیں جواسلام کی بدنامی کا باعث بنے،اس لیے وہ کسی بھی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ان میںسب سے بڑا حربہ یہ ہے کہ وہ جدید تعلیم کے نام پرمسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ وہ اسلام کے خلاف تکرار کے ساتھ یہ پرو پیگنڈہ کرتے ہیں کہ اسلام جدید علوم کے خلاف ہے، اسلام اور جدید علوم آپس میں ضد ہیں۔ آئیے! ہم ذرا تاریخ میںجھانکتے ہیں کہ کیااسلام کی بدولت جدید علوم کی حوصلہ شکنی ہوئی یااسلام کی بدولت سائنس اور ٹیکنالوجی اور نئے علوم کی راہیں کھلیں؟     اسلام سے قبل یونانی حکماء جدید نے علوم کی جانب توجہ دی۔اس زمانے میں سقراط، افلاطون، ٹایس بطلیموس اور ارسطو وغیرہ نے زمین کی سطح،گولائی،اجرامِ فلکی اور دیگر مختلف امور پر مشاہدات اور تحقیقات کی مدد سے نظریات پیش کیے اور معلومات کا بیش بہاذخیرہ چھوڑا۔لیکن یونانیوںکے بعد عیسائیت کے دور میں سائنسی اور جدید علوم زوال کا شکار رہے۔ اس دور میں عیسائی علماء نے یہ جدید نظریات اور علوم باطل قراردیئے، ان کی کتابیں جلادی گئیں اور اس کی تعلیم ممنوع قرار دے دی گئی۔ نتیجۃً یورپ اور وہ علاقے جہاں عیسائیوںکی حکومت تھی،جہالت کے اندھیروں میں ڈوب گئے۔ایک ایسے زمانے میں جہاں عیسائی پادریوں کے جبر واستبداد سے علم وحکمت کا نام ونشان مٹ چکا تھا،عین اسی زمانے میں اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی ذلت و پستی کی حالت پر رحم کھاکر جناب حضرت محمد مصطفیa کو نبی ورسول بناکرعلم وحکمت کے بے شمار علوم عطا فرماکر بھیجا۔ جن کی وحی کی ابتدا ہی لفظ ’’اِقْرَأْ‘‘ ۔۔۔۔۔’ ’پڑھیے ‘‘ سے ہوئی۔حا لانکہ آپa امی تھے، پھر آقا aنے فرمایا: ’’بے شک میں معلّم بناکر بھیجاگیاہوں۔‘‘ نیز فرمایا: ’’بے شک حکمت کے موتی مومن کی گم شدہ متاع ہے، جہاں سے ملے وہ اس کے حاصل کر نے کا سب سے زیادہ حق دار ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے آپa پر قرآنِ مجید جیسی عظیم الشّان کتاب نازل کی، اس جیسی کوئی کتاب کسی نبی پر نازل نہیں ہوئی۔ اس کتاب میں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانیت کوکائنات میںغور وفکر کرنے کی ترغیب اور بہت تاکید کی۔ متعدد آیات میں بنی آدم کو حکم دیا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں غوروفکر کرو ! اس کی نشانیوں کو غور سے دیکھو!     قرآنِ حکیم کی اس ترغیب کی بدولت مسلمانوں نے علم کے حصول اور اس کو پھیلانے کا بیڑا اٹھایا۔ یہی وجہ ہے آٹھویں صدی عیسوی سے لے کر تیرھویں صدی تک کا یہ زمانہ علم وحکمت کا اسلامی دور تھا۔ اس دور میں فلسفہ، طب اور سائنس کے فراموش شدہ علوم کو مسلمانوں نے نہ صرف زندہ کیا، بلکہ اپنی جدید تحقیقات سے ان کو ایک نئی سمت دی۔ ابوہاشم خالد بن یزید -جسے علم کیمیا کا بانی کہا جاتاہے،علم کیمیا اور طب کے بہت بڑے عالم تھے-انہوں نے اس موضوع کے متعلق کئی کتابیں لکھیں۔البیرونی نے ان کو مسلمانوں کا سب سے پہلا حکیم تسلیم کیا۔ جابر بن حیان جو حضرت جعفر صادق v  کے شاگردتھے، انہوں نے گندھگ وغیرہ کے تیزاب اور دھاتوں کو رقیق اور پھر گیس بنانے کا طریقہ دریافت کیا۔ فائر پروف اورواٹر پروف کاغذبھی انہوں نے ایجاد کیا۔انہوں نے بھی اپنے فن کے متعلق سو کے قریب کتابیں لکھیں۔ اس مسلمان سائنس دان کی کتابوں کا انگریزی زبان میں ترجمہ بھی کیا گیا۔ ایک اور بھی مسلمان گزرے ہیں جن کانام ابوعلی حسن بن الہشیم ہے، جنہیں یورپ والے ملک الہیزن کہتے ہیں۔ اس طرح سے کئی ایسے مسلمان سائنسدان گزرے ہیں۔     اس زمانے میں کئی مسلمان سائنسدان حیران کن طور پر مختلف ایجادات کے موجد بنے۔ ابن الہیثم،جابر بن حیان،ابنِ سینا،المقدسی،البیرونی اورابنِ بطوطہ جیسے بڑے مسلمان سائنسدانوں نے جدید مشاہدات اور تحقیقات کی روشنی میں وہ علوم دریافت کیے کہ آج بھی ان کی برابری کوئی نہیں کرسکتا۔ یورپ کی موجودہ سائنسی ترقی ان مسلم سائنسدانوں کی مرہونِ منت ہے۔ ان کی کتابیں یورپ کے لیے ایک رہنماکی حیثیت اختیار کرگئیں۔ آج بھی الشّفاء اور القانون کے حصے ان کے نصاب میں شامل ہیں۔ کیا یہ سب مسلمانوں کی محنت نہیں تھی، جسے آج جدید دور میں ان کی کتابوں سے استفادہ کرکے اپنے آپ کو سائنسدان کہلانے لگے۔     اسلام نے دنیا سے جہالت کی تاریکی دور کردی۔اسلامی تعلیمات کا منشا ہی یہی تھاکہ انسان اپنے ارد گرد کے ماحول اور اپنے آپ میں غور کریں۔ اسلام کے آتے ہی سوچ کے دھارے بدل گئے۔ جدید سائنسی ترقی نے ہمیں غور و فکر کے نئے وسائل مہیا کیے ہیں، چنانچہ جوں جوں سائنس ترقی کرتی جا رہی ہے، قرآن اپنے معجزہ ہونے کے لیے دلائل مہیا کرتاجاتا ہے۔آج اگر مسلمان جدید علوم میں پیچھے ہیں، یہ ان کی اپنی کوتاہی اور اسلامی تعلیمات سے لاپرواہی ہے۔ ان کی کوتاہی کواسلام کے کھاتے میں ہر گز نہیںڈالا جاسکتا۔مگر اس ساری صورتِ حال کے بعد یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام دشمن قوتوں کے اس دعوے میں کتنی صداقت ہے کہ ’’اسلام جدید علوم کے خلاف ہے؟ـ‘‘۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین