بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

’’کاروڑ‘‘کا گل سرسبد (مفتی صالح محمد کاروڑوی شہید رحمۃ اللہ علیہ)

’’کاروڑ‘‘کا گل سرسبد     

دریائے سندھ اورڈیورنڈلائن کے درمیان کا علاقہ پاکستان کاسرحدی اور قبائلی علاقہ کہلاتا ہے۔دریائے سندھ تو مشہور ومعروف دریا ہے، جبکہ ڈیورنڈ لائن وہ خطِ فاصل ہے جو برطانوی حکومت کی ایماء پر ہندوستان کو افغانستان سے متمیز کرنے کے لئے کھینچا گیاتھا،اس خط کی وجہ سے وہاںکی مقامی آبادی پاک اور افغان دو حصوں میں بٹ گئی ہے، مگرقبائل نے زمین کی تقسیم کو دلوں کی تقسیم کا ذریعہ نہیں بننے دیا۔ سیاسی لحاظ سے سرحدی صوبہ یعنی خیبر پختونخوادوحصوں میںتقسیم ہے۔ ایک تو آزاد قبائل کا علاقہ ہے جو مالاکنڈ،مہمند،کرم اور شمالی و جنوبی وزیرستان وغیرہ ایجنسیوں پر مشتمل ہے اور دوسرا زیرِقانون علاقہ ہے جیسے ہزارہ،مردان،پشاور،ڈیرہ اسماعیل خان وغیرہ،اس کے علاوہ کچھ پٹیاں ہیں جو انتظامی ضروریات کے تحت زیرِ قانون اضلاع کے ماتحت ہیں،انہیں ہم نیم قبائلی علاقے کہہ سکتے ہیں۔ ہزارہ ڈویژن جو دریائے سندھ کے مشرق میں واقع ہے اورجہاں سرکار کی عمل داری ہے، اس سے ملحقہ ایک نیم قبائلی علاقہ ہے جو ’’کالاڈھاکہ‘‘ کے نام سے جانا جاتاہے۔ہمارے ممدوح ومحبوب اورراہِ حق کے شہیدمفتی صالح محمدؒکا تعلق اسی سرزمین سے تھا۔ یہ علاقہ صدیوں سے آزاداورخودمختار چلاآرہاتھا،قبائلی روایات اور طرزِ معاشرت کواس نے من وعن محفوظ رکھا تھااوریہاں کے باشندے اپنے نزاعات کاتصفیہ شریعت اور مقامی رسم ورواج کے مطابق کیا کرتے تھے۔ اس علاقے کی تاریخ بتاتی ہے کہ سکھ یہاں اپناتسلط نہیں جماسکے ،مغل بھی اسے زیر نہ کرسکے اور انگریز کو بھی یہاں لاشیں چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ اب یہ علاقہ باقاعدہ حکومتِ پاکستان کا حصہ بن چکاہے اور مقامی آبادی چونکہ پشتون اکثریت پر مشتمل ہے، اس لئے ان کی زبان کی رعایت سے اس کانام’’تورغر‘‘رکھا گیاہے۔تذکرہ اور تاریخ کی کتابوں میں اسے ’’کوہ سیاہ ‘‘اور تبلیغی جماعت کے عرف میں اسے’’ بیت السلام‘‘ کہاجاتا ہے۔مؤخر الذکر کے علاوہ سب کا مطلب تورغر یعنی کالا پہاڑہے۔’’تسمیۃ الکل باسم الجزئ‘‘درسی زبان کی ایک مشہور اصطلاح ہے، ورنہ مجموعی لحاظ سے یہ علاقہ سبز پوشاک اوڑھے رہتا ہے،جو پہاڑ قد میں اونچے ہیںوہ موسم سرما میں سَروں پر سفید عمامے سجالیتے ہیں۔گرمیوں میں جب سورج تپتا ہے تواس کی گرم شعاعیں ان پہاڑوں پر جلتی آگ کا منظر پیش کرتی ہیں۔ان ہی پہاڑوں کے درمیان چٹانوں سے ٹکراتا، شور مچاتا اور بل کھاتا ہوادریائے سندھ بہتاہے جو پاکستان کا عظیم آبی ذخیرہ ،زرعی حیات کا ضامن اورپرشکوہ تہذیبوں کامحافظ ہے، جس کی قدامت،وجاہت اور عظمت نے ہر دور کے شعرائ،قلمکاروں اوردانشوروں سے خراج تحسین وصول کیا ہے۔ دریائے سندھ کے دونوںکناروں پر تا تاری نسل کے ہندوحکمراں چلے آتے تھے۔ایک طرف مداخیل اور دوسری طرف امازئی آباد تھے۔حضرت اخون سالاک کابل گرامیؒ جو سترھویں صدی کے بزرگ گزرے ہیں ان کی جہادی مہم کے نتیجے میں یوسف زئی قبیلے نے اُن ہندوؤں کویہاں سے بے دخل کیا۔اب زمانہ موجودہ میں دریا کی مشرقی سمت پر حسن زئی،چغرزئی،بسی خیل اور نصرت خیل آباد ہیں اور مغربی جانب امازئی اور مداخیل کی آبادیاں ہیں۔مفتی صالح محمدکاروڑیؒ اسی مداخیل قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ عربوں میں جس طرح قومیت اور خاندان کا شاخ درشاخ سلسلہ ہے اور اتحادِ نسب کا بعید ترین تعلق’’شعب‘‘سے ظاہر کیا جاتاہے اور آخری اور قریبی حلقہ’’اسرۃ‘‘اور ’’ عائلۃ‘‘ہے اور درمیان میںاوپر سے نیچے آتے ہوئے شعب کے بعد’’ قبیلہ‘‘ پھر’’ عمارہ‘‘ پھر ’’بطن‘‘ پھر’’ فخذ‘‘ اور پھر’’ فصیلہ‘‘ ہے،اسی طرح قبائلی بھی ایک پیچ درپیچ اور شاخ درشاخ خاندانی سلسلے میں منقسم ہیں۔پہلے قوم ہے، پھرقبیلہ ہے، پھر خیل ہے، پھر خاندان ہے اور خاندان گھرانوں میں تقسیم ہے۔مفتی صاحب پشتونوں میں یوسف زئی اوریوسف زئیوں میں مداخیل اورمداخیل کی شاخ حسن خیل اوراس کی شاخ مندامانہ اور مندامانہ کی شاخ موسیٰ خیل سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے گاؤں کا نام’’کاروڑ‘‘ہے،جوکہ اصل میں ’’کہروڑ‘‘تھا اور ایک ہندو کا نام تھا، مگر امتدادِزمانہ سے کاروڑ ہوگیا،اسی نسبت سے آپ کاروڑی لکھتے اور کہلاتے تھے۔یہ گاؤں تقریباََ پانچ سو گھرانوں پر مشتمل ہے اوربجلی،گیس،ٹیلیفون،سڑک اور ہسپتال جیسی ضروری اور بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ٹیبل نما پہاڑوں پر واقع ہونے کی وجہ سے گاؤں تک چڑھنے کا راستہ بہت دشوارگزارہے اور ضروریاتِ زندگی سرپراٹھاکریا جانوروں پر لاد کر اوپر پہنچائی جاتی ہیں۔اسی پسماندہ اور دور افتادہ گاؤںمیںداواخان بن مقتدر خان کے گھرانے میںجس بچے نے آنکھ کھولی، اسی کانام  صالح  محمد ہے۔آپ کی دوبہنیں ہیں اورتینوں بھائیوں میں آپ منجھلے تھے۔ دو بیوائیں،دوبیٹے اور تین بیٹیاں آپ نے سوگوار چھوڑی ہیں۔ شہید مفتی صاحبؒ کا گاؤں دریائے سندھ کے کنارے آباد ہے۔ارد گرد کا ماحول انسانی مزاج کی تشکیل اور سیرت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتاہے۔یہ ایک طاقتور عامل سمجھا جاتاہے جو انسانی خد وخال سے لے کراس کی طرزِمعیشت ومعاشرت اور جذبات وخیالات تک کو متاثرکرتاہے۔مفتی صاحب کی طبیعت میں اس عامل کاگہرا اثر پایاجاتاتھا۔دریائے سندھ میں تموج اور تلاطم رہتاہے تو اس کے فرزند کی زندگی میں بھی ایک ہیجان اور اضطراب تھا،یہ ریگ زاروں کو گلزاروں میں بدلتاہے تواس کے سپوت کامشن بھی بنجراور سوختہ زمینوںکو لہلہلاتے سبزہ زاروں میں تبدیل کرنے کاتھا،اس کی تند وتیز موجیں پہاڑوں سے سر ٹکراکرآگے بڑھتی ہیں تواس کا بیٹا بھی کسی خارجی سہارے کے بغیر محض اپنی فطری لیاقت اورذاتی صلاحیت کے بل بوتے پر آگے بڑھاتھا۔اے دریا۔۔۔!اگر تجھ پر زرعی حیات کا انحصار ہے تو ان پر روحانی حیات کا مدار تھا،تو اگر تہذیبی اور تمدنی روایات کاامین ہے تو وہ دینی اقدار اور نبوی علوم کا محافظ تھا،چٹانیں کھسک کر تیرے پیندے میں آگرتی ہیں، مگر تو اپنا راستہ تبدیل کرتاہے، نہ ہی تیرا ہیجان اور روانی متاثر ہوتی ہے،پھر تعجب کیا ہے کہ تیرے بیٹے نے مخالف بادِمخالف اورنامساعد حالات کو کبھی اہمیت نہیں دی،یہ سبق تیرا ہی سکھایا ہواتھا،اگر وہ کشادہ دل اور وسیع الظرف تھے اور سب کے لئے سینے میں جگہ رکھتے تھے توتیرا معاون دریاؤوںکوسینے سے لگانا اورانہیں دامن میں بھر کربہنا کیا معنی رکھتا ہے؟،تو تبت سے نکل کر بحیرہ عرب میں اپنا وجود گم کردیتا ہے،اگر انہوں نے اپنی ہستی مٹادی اور جان جاں نثار کردی تویہ خصلت تیری بدولت ان کی فطرت میں ودیعت تھی۔ دریا کو بہنے اور پھیلنے کے لئے وسیع رقبہ چاہئے تودریا صفت انسان کو بھی کام کا وسیع میدان چاہئے ہوتاہے۔پانی پڑے پڑے گدلاہوجاتاہے،مشینری زنگ آلود ہوجاتی ہے،صلاحیت بھی اگر آزمائی نہ جائے تو مرجھاجاتی ہے۔مفتی صالح محمدؒجس قوم اور قبیلے سے تعلق رکھتے تھے ان کے مزاج میں انفرادیت پسندی ہے ،دنیا سے ان کا ربط وضبط کم ہے اور پہاڑوں نے انہیں باقی دنیا سے الگ تھلگ رکھا ہے،وہ ان پہاڑوں کو شدت سے چاہتے ہیں، اپنے حال پر نازاں، ہمہ دم فرحاںاور سدا بہارشاداں رہتے ہیں۔بعض قبائلی بوڑھے ایسے ہیں جنہوں نے آج تک اپنے علاقے سے باہر قدم نہیں رکھا ہے،ان باتوں کا تقاضاتھا کہ آپ تمام عمر بے نام اور گمنام رہتے اور آپ کو اپنی فطرت میں ودیعت صلاحیتیں آزمانے کا موقع ہی نہ ملتا، مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ خیر کا ارادہ فرمایااورآپ کو اس نعمت سے نوازاجس کا احسان اس نے خاندانِ یوسف علیہ السلام پریہ کہہ کر جتلایا ہے کہ ہم تمہیں دیہات سے لے آئے’’وجاء بکم من البدو‘‘۔(یوسف:۱۰۰) دیہات سے شہر آنے کا حقیقی سبب تو وہی ہے جو اوپر بیان ہوا،مگر اس کاظاہری سبب وہ رسم ہے جوصدیوں سے قبائل میں رائج ہے اور ابتدائی اسرائیلی عہد کی یادگار ہے،جس کے تحت قبیلہ اور اس کے تحتی افراد کے درمیان وقتاََ فوقتاََ زمین کا تبادلہ ہوتارہتا ہے۔یہ رسم’’ویش‘‘کے نام سے مشہور ہے۔اس کے پسِ پشت فلسفہ یہ ہے کہ ہر خاندان اور خاندان کا ہر فرد کچھ عرصے کے لئے بہترین زمین سے متمتع ہوسکے، تاکہ اقتصادی قوت کے بل بوتے پر سیادت کے ارتقا کو روکا جا سکے۔ گویا زمین کی عارضی تقسیم کا نام’’ ویش ‘‘ہے۔ قبائل جب ان زمینوں پر پہنچے تھے تو انہوں نے زمین کی تقسیم کا یہ منصفانہ نظام وضع کیا تھا،اس نظامِ اراضی کے تحت تقریباً آدھی زمین شاملات یعنی مشترکہ چراگاہ کے طور پر چھوڑی گئی اور بقیہ تمام خیلوں میں برابر تقسیم کردی گئی اور خیل کا حصہ اس کے مختلف خاندانوں میں بانٹ دیا گیا۔وراثتی نظام کے تحت پشت درپشت منتقلی اور خاندان کے پھیلاؤاور ان میںتقسیم کی وجہ سے فر د کا حصہ اتنا قلیل رہ گیا کہ گزراوقات اس پر مشکل ہوگئی،نتیجۃََ قبائل کے افراد ہجرت پر مجبور ہوگئے۔تعجب خیز امریہ ہے کہ عموماً یہ تبادلے بلا کشت وخون ہوتے ہیں اور کبھی زمین اور چراگاہوں کے ساتھ رہائش گاہیں بھی تبدیل ہوجاتی ہیں۔دس پندرہ سال قبل حسن زئی قوم میں اسی قسم کی تقسیم ہوئی تھی۔اس رسم سے کمال واقفیت مفتی صاحب کے لئے اراضی اور شاملات کے متعلق نزاعات کے تصفیے میںبہت آسانیاں پیدا کرتی تھی۔ بہرحال ہجرت کی وجہ جو بھی ہو،مفتی صاحب پانچ سال کی عمر میں اپنے والد کے ہمراہ کراچی منتقل ہوئے۔ اولین رہائش نرسری کے علاقے میں ایک ڈیرے میں تھی،اسی علاقے میں تیسری جماعت تک تعلیم حاصل کی،آپ کے والد کا بیان ہے کہ میں موم بتی کی روشنی میں انہیںپڑھایا کرتا تھا۔نرسری سے آپ قصبہ کالونی منتقل ہوئے اورمدرسہ اشاعت القرآن میں ناظرہ پڑھنا شروع کیا،قاری سلطان عمر صاحب دینی علوم میں آپ کے اولین استاد ہیں،اس کے بعد جامعہ ربانیہ میں ثانیہ تک کی کتب پڑھیں،اس دوران آپ کی والدہ ماجدہ بھی گاؤں سے کراچی تشریف لے آئیں۔چھٹیوں میں دورہ تفسیر کے لئے شاہ پور چلے گئے اور ارادہ سوات میں درس نظامی کی تکمیل کا تھا،مگر والد صاحب راضی نہ ہوئے اور بادل نخواستہ کراچی واپس آنا پڑا۔رابعہ تک مخزن العلوم بنارس میں پڑھا اور خامسہ سے جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں داخلہ لیااور یہیں سے ۱۹۹۳ء میں سند فراغت حاصل کی،جامعہ کے استاداورجامع مسجد بنوری ٹاؤن کے امام مولانا سید یوسف حسن طاہر الحسینی اور جامعہ کے مدرس مولانا قاری زبیر احمد صاحب اور مولانا عزیز الحق صاحب(حال مقیم برطانیہ)آپ کے ہم درس اورہم سبق رہے ہیں۔جامعہ ہی سے مفتی نظام الدین شامزئ شہیدؒ اور مفتی عبدالسلام چاٹگامی مدظلہ العالی کے زیر سایہ افتاء کی مشق کی اور تخصص کی سند حاصل کی۔ آپ کی تشنگی دوسالہ تخصص سے دور نہیں ہوئی، اس لئے چار سال مزید فتوی نویسی کی مشق کے لئے آتے رہے، حالانکہ حضرت قاری ضیاء الحق صاحب کے مدرسے جامعہ تعلیم القرآن متصل الفلاح مسجد میں بہ حیثیت مدرس آپ کا تقرر ہوچکاتھا۔ حضرت مفتی نظام الدین شامزئ  ؒ فرمایا کرتے تھے کہ’’ لڑکے صرف فاضلِ وفاق ہونے کو کافی سمجھتے ہیں اور پھر شکایت کرتے ہیں کہ دنیا ان کی قدرنہیں کرتی‘‘۔یہ فرمانے کے بعدروئے سخن مخاطبین کی طرف کرکے فرماتے تھے:’’تم اپنے اندر کمال پیدا کرلواور پھر آبادیوں سے دور نکل جاؤاور کسی اونچے پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھ جاؤ،دنیا تمہیںوہاں بھی ڈھونڈ نکالے گی،المیہ یہ ہے کہ لوگ کمال اور صلاحیت پیدا کئے بغیر دنیا سے ناقدری کی شکایت کرتے ہیں۔‘‘یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ جوہر شناس نگاہوں اور کمال کی قدردان شخصیتوں سے آپ اوجھل رہ جاتے،اس لئے ۱۹۹۸ء میں جامعہ کے دارالافتاء میں بہ حیثیت مفتی آپ کا تقرر عمل میں آیا۔ جامعہ میں خدمتِ افتاء کے ساتھ آپ جامعہ درویشیہ میں تخصص کے نگراں اور مشرف تھے اور وہاںدورہ حدیث میں ترمذی شریف کا درس بھی آپ کے سپرد تھا،اس کے علاوہ جامعہ احیاء العلوم پیر کالونی بھی ایک آدھ گھنٹے کے لئے تشریف لے جاتے۔ شہادت کے سال جامعہ میں اصول فقہ کی کتاب نورالانوار آپ کے زیر تدریس تھی۔ حضرت شہیدؒ نام کی بجائے کام اور دعووں سے زیادہ عمل پر یقین رکھتے تھے۔آپ کی باتوں میںتو تقریر کا زور اور فصاحت وبلاغت کا جوش نظر نہیں آتا تھا اور زبان میں بھی کسی قدر علاقائیت کی جھلک تھی، جس کی بناء پر آپ کی حقیقی شخصیت پردہ خفاء میں رہتی اورنووارد آپ کے متعلق درست رائے قائم کرنے میں غلطی کرجاتاتھا، مگر آپ کے ہاںعملیت تھی اوربقول مولانا سید سلیمان ندویؒ کے اسی کی دنیا کو ضرورت ہے ورنہ دلکش نعروں،بلند بانگ دعووں،میٹھی میٹھی باتوں،مؤثر تمثیلوں اور دل آویز حکایتوں کی یہاں کمی نہیں۔آپ کی اسی عملیت پسندی کا نمونہ آپ کی قائم کردہ جامع مسجد نور اور اس سے ملحقہ جامعۃ النور الاسلامیۃ ہے۔مدرسے میں سات سو کے لگ بھگ بچے حفظ وناظرہ کی تعلیم حاصل کررہے ہیں جس میں اَسّی(۸۰) کی تعداد سایۂ پدری سے محروم یتیم بچوں کی ہے۔خود آپ کی زندگی عسرت اور تنگی میں گزری ہے،جس کی ایک وجہ قلیل پر قناعت اورنزاع کے خوف سے اپنے حق سے دستبرداری بھی ہے۔ شہادت سے کچھ ہی عرصہ قبل قرض کے بار سے سبکدوش ہوئے تھے، مگر ان بچوں کے لئے آپ کے ہاں بہت کچھ تھا،خود ان کے دروازے پر جاکر ان کو ضروریات مہیا کرتے تھے۔نجی مجلس میںفرمایا کرتے تھے کہ مجھے مکتب اور مدرسے اور ان معصوموں کی بدولت اللہ تعالیٰ سے نرمی کی امید ہے۔اسی جذبے کے تحت آپ نے ایک مطلقہ سے عقد ثانی فرمایا تھااور اس کے پہلے شوہر سے بچے بھی اپنے زیر کفالت اورزیر تربیت لے لئے تھے۔ عام زندگی میں آپ سادگی پسنداور جفاکش دکھائی دیتے تھے۔طبیعت کے ہنس مکھ اور خوش مزاج تھے ۔قد درمیانہ،بدن ٹھوس اور جسم چست وچابک تھاجس کی وجہ وہ ماحول تھا جس میں محنت اور جفاکشی کے بغیر گذارا مشکل ہے۔محنت اور غیرت،خودداری اور خود اعتمادی آپ کے خون میں شامل تھی۔ اپنی دنیا کے آپ بادشاہ اور دوسروں کی بے جا اطاعت سے ناآشنا تھے۔اپنے کام میں مگن ،اردگرد کی غیر تعلیمی سرگرمیوں سے لاتعلق اور نمایاں ہونے کے شوق سے قطعاً نابلد تھے۔میلے ٹھیلوں اور غیر ضروری بھکیڑوں میں الجھنے کی آپ کو فرصت نہ تھی۔ بڑوں سے مؤدبانہ،رفقاء سے دوستانہ اور چھوٹوں سے مشفقانہ اور خیر خواہانہ رویہ رکھتے تھے ،وقت کے پابند تھے،سردی ہو یا گرمی،حالات پر امن ہوں یا گولیوں کی گھن گرج ہو،مفتی صالح محمد اپنی نشست پر موجود ہوتے تھے۔گھریلو کام خود انجام دینے کے عادی تھے،پچاس کلو کی بوری خود ہی اٹھا کر گھرلایا کرتے تھے۔ اپنا ذاتی مکان تعمیر کیا تھا جس کا نقشہ،کٹنگ،شیٹرنگ اور مہارت کے متقاضی تمام کام خود انجام دیئے تھے،صرف تعمیری سازوسامان کے لانے،اٹھانے،ملانے وغیرہ کے کام اجرت پر کرائے تھے۔رات کے اوقات میں ایک ماربل فیکٹری میں تشریف لے جاتے،وہاں کے منتظم کریم صاحب کا بیان ہے کہ اپنی ذکاوت اور ذہانت کی بدولت مفتی صاحب کچھ ہی عرصہ میں نوے فیصد کام جان گئے تھے۔اہل علاقہ اور آپ کے درمیان کوئی فاصلے نہیں تھے ۔تخصص کے جو طلبافارغ ہوکر جاچکے ہیں،وہ مسلسل آپ سے ربط میں رہتے تھے اورآپ ان کی معاونت اور رہنمائی فرماتے اور انہیں مفید مشوروں سے نوازتے تھے،شام کے اوقات میں اسی وجہ سے آپ کا فون بہت مصروف ملتاتھا،منٹوں اور سیکنڈوں کو مادیت کے ترازو میں تولنے والی ذہنیت کے نزدیک آپ کا یہ عمل اوقات کا ضیاع تھا، مگر جس کا مقصد ہی ہمہ وقت خیر کا فیضان ہو اس کے لئے یہ باتیں بے معنی تھیں۔  جو علمی سرمایہ آپ نے یادگار چھوڑا ہے ان میںفقہ کی مشہور کتاب’’کبیری‘‘پر آپ کے تعلیقات اور اضافہ عنوانات ہیں۔مرحوم شہید اپنی حیات میں اس کا تذکرہ کیا کرتے تھے ، اللہ کرے زیور طبع سے آراستہ ہوجائے ۔کبیری پر کا م کا آغاز دوران حج حرمِ مدنی میں کرلیا تھا۔کفایت المفتی اور فتاوی رحیمیہ آپ کی تخریج شدہ متداول ہیں۔فتاوی دارالعلوم دیوبند کوابواب پر مرتب کیاتھا۔ فتاوی محمودیہ پر کسی قدر کام کیا تھا، مگر کسی عارض کے سبب سے روک دیا تھا۔سب سے اہم استنساخ(کلوننگ)کے موضوع پر آپ کی کتاب ہے،جو اپنے موضوع پر نہایت قیمتی معلومات،پر مغز تبصروںاور جدید طبی اصولوں کے بیان پر مشتمل ہے۔کتاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ مواد کے جمع کرنے میں غیر معمولی محنت اٹھائی گئی ہے۔کسی کو ان کی آراء اور قائم کردہ فیصلوں سے اختلاف ممکن ہے، مگروہ مؤلف کی تحقیق اور دلائل کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا ہے۔ اس موضوع پر اردوزبان میں اس سے بہتر ،معلومات آفریں اور محققانہ کتاب شاید ہی کوئی ہو۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ تمام کام فراغت کے بعد ابتدائی یا زیادہ سے زیادہ درمیانی سالوں کا ہے،آخری سالوں میں کچھ لکھنے لکھانے کا سلسلہ متروک تھا،حالانکہ تحقیق وتصنیف کا ذوق رکھتے تھے ،قلم وقرطاس سے تعلق کے انقطاع پر حزین تھے اوراپنے علمی منصوبوں کی عدم تکمیل کا حسرت سے ذکر کیا کرتے تھے۔تصنیف وتالیف کایہ سلسلہ جاری کیوں نہ رہ سکا،رفتار کم بلکہ ختم کیوں ہوئی؟اب اس کا ذکر فائدہ تو کوئی نہیں رکھتا،البتہ غم میںمزید اضافے کا سبب ضرور ہے۔ فقہ کے علاوہ سیاست اوراس کا خاص باب بین الاقوامی تعلقات آپ کا پسندیدہ موضوع تھا۔اس موضوع پر گفتگو کے وقت معلوم ہوتا تھا کہ کسی یونیورسٹی میں آئی آرکا پروفیسراس موضوع پر لیکچر دے رہا ہے۔خطے کی صورت حال،داخلی حالات اور مستقبل کے امکانات پر اپنی مخصوص رائے رکھتے تھے۔اقوام عالم میں افغان قوم کے متعلق اقبال کے نظریے ’’افغان باقی کہسار باقی‘‘سے متفق تھے۔ پاکستانی قوموں کی عادات وخصائص اور ان کی اصل ونسل کو بیان کرتے ہوئے شاخ درشاخ تقسیم کرکے بالکل تحتانی درجے تک پہنچ جاتے تھے۔کسی مبالغہ اور رنگ آمیزی کے بغیر بعض قوموں کے متعلق اتنی واقفیت رکھتے تھے کہ وہ خود اپنے آپ کے متعلق بھی اتنا نہیں جانتی ہوں گی۔ ان سطور کی تحریر کے وقت مفتی صالح محمدؒکی شہادت کو ایک مہینے سے زائد ہوگیا ہے، مگر دل اب بھی اسے ایک حقیقتِ واقعہ کے طور پر قبول کرنے کوتیار نہیں ہے اور کیسے تسلیم کرلے جبکہ جذبات سے عاری اور داخلی احساسات سے خالی بے جان اشیاء میںبھی صرف جسمانی قربت سے ایک تعلق پیدا ہوجاتاہے اورایک کے الگ کرنے سے دوسرا مزاحمت کرتاہے ،انسان تو پھر انسان ہے ،سینے میں دل اور دل میں جذبات رکھتاہے ۔ ہم زبان کو شہداء کی یاد سے بند رکھیں یہ تو طاقت میں ہے مگر دل پر کس کازروچلتاہے اور سوچ پر کیسے پہرے بٹھائے جاسکتے ہیں؟جبکہ پورا کا پوراماحول ان کی یاد دلاتا ہے ، جب ان کی نشست کی طرف نگاہ اٹھتی ہے توچشم تخیل میں وہ بیٹھے نظرآتے ہیں،لوگوں کا مجمع ان کے اردگرد لگاہواہے ،زبانی دریافت کرنے والے سامنے جبکہ تحکیم کے لئے تشریف لانے والے ٹولیاںبنائے انتظار میںبیٹھے ہیں،ہجوم اتناہے کہ برابر میںاستاذمحترم مفتی عبدالقادر صاحب کو اپنی نشست تک پہنچنے میں دقت ہورہی ہے،آوازیں اتنی بلند ہورہی ہیں کہ رفقاء کا کام متاثر ہورہاہے اور انہیںباربارآوازپست رکھنے کی تلقین کی جارہی ہے،فون ابھی رکھا نہیںکہ دوبارہ بجنے لگتاہے،دائیں طرف خواتین پردے میں اپنا دکھڑا سنارہی ہیںتو سامنے کاغذات کا ڈھیر لگاپڑا ہے،کچھ فتاوی دستخط کے منتظرتو کچھ تصحیح طلب،طلبہ کچھ کاغذ اٹھاتے ہیںاوراس سے زیادہ رکھ دیتے ہیں،اس دوران پوچھنے والے کو جوابات،طلبہ کو ہدایات اور سامنے کاؤنٹر والوں کو احکامات دیئے جارہے ہیں۔ اس قدر کام کا دباؤکہ ذھن ماؤف اور اعصاب جواب دے جائیںاور انسان سب کچھ چھوڑ چھاڑ کردور نکل جائے،مگر وہ اللہ کا بندہ نہ تھکتا ہے نہ ضبط نفس کھوتا ہے اورنہ مزاج میں کوئی چڑچڑا پن پیدا ہوتا ہے،زیر تربیت طالب علم کی کسی فحش غلطی کی وجہ سے اگرتھوڑی دیر کے لئے طبیعت میںکوئی جھنجھلاہٹ پیدابھی ہوتی ہے توفوراًاس پر قابو پالیتاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی ذہنی اوردماغی کام خصوصاً فتوی نویسی جیسی نازک اور حساس ذمہ داری پرسکون علمی ماحول چاہتی ہے، مگروہ یہاںمفقود ہے جس کی وجہ وہی کثرت سے لوگوں کی مراجعت ہے۔مفتیان کرام کتابوں کے درمیان براجمان ضرور ہوتے ہیں، مگر کام کے اوقات میں ان کتابوںکو چھونے کی نوبت کم ہی آتی ہے،صرف سابقہ تجربات اورپچھلی معلومات کے سہارے کام چلانا پڑتاہے۔ فتویٰ ایک طرح کی نیم عدالتی کاروائی ہے۔مفتی عدالتی کارروائی میںمدد دیتا ہے۔اس طرح کی نیم عدالتی کارروائی میں صورت حال اس وقت بہت نازک ہوجایا کرتی ہے جب فریقین غصے سے مغلوب ہوجاتے ہیں،پہلے تو صرف آوازیں بلند ہوتی ہیں،پھر گالم گلوچ شروع ہوجاتی ہے اوربالآخر ایک دوسرے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں،مگرمفتی صاحب ایسے ماحول کا ذرا برابر اثر نہیں لیتے تھے،ان کاذہن مسلسل اپنے ہدف پر مرکوزرہتا تھا۔ قبائلی علاقوں کے سوالات خاص دلچسپی سے آپ حل کرتے تھے، جس کی وجہ ان کے ماحول،رسم ورواج اور عرف وعادات سے آپ کی واقفیت تھی۔بدل،ننواتی،شرمالہ،تور،توئی،ویش،جغ وغیرہ رسومات سے اور میاں،آستانے دار،ملا،تورے دار وغیرہ اقوام کی تقسیم سے ایسے واقف تھے جیسے پوری زندگی ان ہی کے درمیان گزری ہو۔میں تو صرف یہ دیکھ کر حیران ہوجاتا تھاکہ آپ مختلف بولیاں سمجھتے کیسے ہیں؟۔مہینے ڈیڑھ پہلے ایک سوال آیا کہ میں نے نذر مانی ہے کہ ’’کفارت ‘‘کے روزے رکھوں گی،آپ نے جواب میں دو مہینے مسلسل روزے رکھنا تحریر کیا،اس پر کچھ اختلاف رائے ہوا،طے یہ ہو اکہ عرف کی تحقیق کی جائے،جب ایسا کیا گیا تو حقیقت وہی نکلی جو آپ نے تحریر کی تھی۔کسی جرگے کا فیصلہ آپ کے سامنے پیش کیا جاتا تو اس نظر سے دیکھتے کہ آیا جرگے نے حق وباطل اور جائز ناجائز کا فیصلہ کیا ہے یا صرف صورتحال کو پرامن رکھنے کی کوشش کی ہے یا صرف قبائلی روایات بیان کرکے مسئلہ نمٹادیا گیا ہے۔ کسی سوال کے جواب میں جب ضرورت محسوس کرتے وضاحت طلب کرتے، مگر انداز ایسا اختیار کرتے تھے کہ سوال کا منشا ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے،جس سے سائل آپ کے ذہن کوپڑھنے سے قاصر رہتا تھا۔نوآموز لوگ تنقیح لیتے ہوئے جواب بھی سمجھادیتے ہیںاور جواب معلوم ہونے کے بعدلوگ اسی کے مطابق وضاحت دیتے ہیں۔دیانت عام ہوتی تو ایساکرنے میں حرج نہیں تھا، مگرجس کرپٹ معاشرے میں ہم جی رہے ہیں اس میںتنقیح کے ضمن میںاصل مسئلہ بتادینا لوگوں کے حقوق ضائع کرنا ہے۔مدعی یا مدعی علیہ پر بھی اگر فیصلے سے پہلے فیصلے کے آثار ظاہر ہوجائیں تو وہ فیصلے کے ڈر سے تاخیری حربے یا کارروائی کوسبوتاژ کرنے یامنصف بدلنے یا پھر کم ازکم اس کی نیت پر شک کرناشروع کردیتا ہے۔ مفتی صاحب مرحوم تحکیم طلب مسائل کی بھی سماعت فرمایا کرتے تھے ،اس خدمت کوجس احسن طریقے سے انہوں نے نبھایا اس کی وجہ’’ تنازعات کے تصفیہ‘‘کاوہ خداداد ملکہ تھاجوحق تعالیٰ نے انہیں مرحمت فرمایا تھا۔ان کی یہ صفت ہمارے لئے باعث رشک اور ان کے لئے قابل فخر تھی ۔ظاہر میں یہ ایک وحدانی صفت ہے، مگر حقیقت میں کئی صفات کا مجموعہ ہے، مثلاًکسی تنازع کے حل کے لئے اولین شرط معاملہ فہمی ہے۔مفتی صاحب اس قدر زیرک اور معاملہ فہم واقع ہوئے تھے کہ سرسری سی سماعت کے بعد مسئلے کی جڑ تک پہنچ جاتے تھے، مگرہمدردی اور خیرخواہی کا جذبہ تھا کہ فیصلہ واضح ہوجانے کے باوجوداسے جلد صادر نہیں فرماتے تھے، بلکہ حتی الامکان صلح وصفائی اور مصالحت کی کوشش کرتے تھے،فریقین کو بار بار اس کا موقع دیتے تھے ،اس سلسلے میں وقت کا سوال ان کے نزدیک غیر اہم تھا،اس کا نتیجہ تھا کہ اہل معاملہ گلے مل کر اور خنداںوفرحاںان کے پاس سے رخصت ہوتے تھے۔ ثالث کا کردار اداکرتے وقت الفاظ سے زیادہ معانی اور تعبیر سے زیادہ مقصود پر نگاہ رکھنی پڑتی ہے ۔بعض لوگ دعویٰ لے کر آتے ہیں، مگر ان کا مقصد کسی نئے حق کا حصول نہیں، بلکہ اپنے موجودہ حقوق کو مدعی علیہ کی مداخلت سے محفوظ کرنا ہوتا ہے،گویا وہ اقدام کے پردے میں دفاع چاہتے ہیں، مگر صاف لفظوں میں اس کا اظہار نہیں کرتے ہیں۔ کبھی مدعی کا ظاہر ی دعویٰ کچھ ہوتاہے، مگر اصل مطلوب کچھ اور ہوتاہے۔کچھ لوگ اپنی طلاقت لسانی اور زور بیانی سے منصف کا ذہن متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر ایسی کوئی کوشش یا چالاکی ان کے سامنے کامیاب نہیں ہوسکتی تھی۔سماعت کے خاتمے پرجو فیصلہ تحریر فرماتے تھے،اس میں واقعات کا خلاصہ،فیصلہ طلب امور،متنازع امور کا فیصلہ،فیصلہ کی وجوہات اور شہادات وغیرہ سب کا بیان ہوتاتھا، ایک عدالتی فیصلے کی پوری روح اور حقیقت اس میں موجود ہوتی تھی، صرف اصطلاحات کا بیان رہ جاتا تھا۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ تحکیم کے شعبہ کوسعت دی جائے اور اسے ایک منظم ادارے کی صورت میںسامنے لایا جائے،زمانے کو اس کی ضرورت ہے ،شریعت اسے تسلیم کرتی ہے،دورنبوت میں اس کا ثبوت ملتاہے ،قضاء کا یہ اہم باب ہے۔ زمانہ جاہلیت میں بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں،عکاظ کے میلے میں نزاعات کو فیصل کرنے کے لئے ثالث مقرر ہواکرتے تھے۔خودہمارے ہاں قانون ثالثی کے نام سے جو قانون رائج ہے، اس کی رو سے اگر جانبین یہ معاہدہ کرلیں کہ ہم آپس میں پیدا شدہ تنازع کا فلاں سے فیصلہ کرائیں گے توتمام عدالتوں کا اختیار سماعت ختم ہوجاتاہے،مگر بدقسمتی یہ ہے کہ قانون ثالثی وہی قانون ہے جو پورا کا پورا انگلستان کا ہے اور اٹھا کر یہاں نافذ کردیا گیا ہے۔ساٹھ سال میں ہم اس میں کوئی ترمیم بھی نہیں کرسکے ہیں اور جہاں کی ہے وہاں اسے بہت الجھادیا ہے۔اگر تنازعات کے تصفیہ کے اس متبادل نظام کو منظم اور مرتب کیا جائے تو یہ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی خدمت ہوگی۔لوگ مروجہ عدالتی نظام سے مایوس ہوچکے ہیں،ضرورت پڑنے پر بھی عدالت کا سہارا لینا پسند نہیں کرتے ہیں،کیونکہ وہاں وقت اور پیسہ بہت خرچ ہوتاہے،نظام طویل اور پیچیدہ ہے اور یہاں کے کلچر اور ثقافت کے خلاف ہے ،نتیجہ یہ ہے کہ دیوانی مقدمے کے بعد فوجداری مقدمہ شروع ہوجاتاہے اور ایک مرتبہ عدالت جانے کے بعد پھروہاںسے نکلنا دشوار ہوجاتاہے۔گورنمٹ قانون پر قانون بناتی ہے، مگر اصل مسئلہ قانون کی روح کے مطابق اس پر عمل درآمد کا ہے ، قانون بذات خود اتنی اہمیت نہیں رکھتا جتنی اہمیت وہ ہاتھ رکھتے ہیں جو اسے نافذ کرتے ہیں،ایسے ہاتھ کرپٹ اور بد عنوان ہیں۔بالائی عدالتوں میںکرپشن کم ہوئی ہے، لیکن عوام کازیادہ تر واسطہ نچلی سطح کی عدالتوں سے پڑتاہے۔اگر کسی کے حق میں دعوی ڈگری ہوجائے تو اس کے بعداہم مرحلہ اس کے نفاذکا آتا ہے ،یہاں آکر کمزور بے بس ہوجاتاہے،ایک بڑھیا کس طرح ایک طاقتور مافیا سے قبضہ چھڑا سکتی ہے؟ اوراگر نہیں چھڑاسکتی تو کاغذکا وہ پرزہ اس کے کس کام کا ہے؟ایک محترم جج صاحب کے بقول ہمارے ہاں انصاف پانے کے لئے عمرنوح،صبر ایوب،گنج قارون اور حیات خضر چاہئے۔ عدل وانصاف آسمانی کتابوں کا مقصد اور پیغمبروں کی تعلیم وتبلیغ کا حصہ رہا ہے،اس نظامِ عدل کا ایک جزء تحکیم بھی ہے اور تحکیم کے احیاء واصلاح کی ہمیں قدرت بھی ہے، اس لئے اس موضوع پر گفتگو ذرا طویل ہوگئی، ورنہ اصل مقصود تو مرحوم شہید کے طریقۂ انصاف کو بیان کرنا تھا۔وہ انصاف کرتے تھے اس لئے ان کے ساتھ بھی انصاف ہوگا۔یہاں اگر عدالتِ انصاف نہیں لگتی تو عن قریب ایک بڑی عدالتِ انصاف لگنے والی ہے،مفتی صالح کو وہاں کچھ کہنے کی ضرورت نہ ہوگی۔’’لہو پکارے گا‘‘ کاشاعرانہ تخیل اس دن حقیقت کا روپ دھارے گااور وہی دن ہوگاجب صحیح معنی میں سینے کی جلن اور کلیجے کی تپش ٹھنڈی ہوگی۔  اس دنیامیںہماری تسکین اور ہمت افزائی کے لئے شہیدکے والد کے وہ وجد آفریں ،ایمانی قوت سے بھرپوراور جذبۂ تسلیم ورضامیں ڈوبے ہوئے کلمات کافی ہیںجو انہوں جواں سال اور خون میں لت پت بیٹے کے لاشے کو دیکھ کر کہے تھے کہ’’مجھے فخر ہے کہ میرا بیٹا خاندان کا پہلاعالم تھا،خاندان کا پہلا مفتی تھااور اب یہ اعزاز بھی مجھے حاصل ہوگیا ہے کہ میرا بیٹااپنے خاندان کا پہلا شہیدہے‘‘۔ ٭٭…٭٭

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین