بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

کائناتِ روحانی (دوسری اور آخری قسط)

 

کائناتِ روحانی

           (دوسری اور آخری قسط)

بہرحال میں کیا کہنے لگا، غرض یہ ہے کہ انسان اور کائنات کے باہمی تعلقات پر نظر ڈالنے کے بعد یہ مسئلہ بالکل صاف ہوجاتا ہے کہ جس حکمت بالغہ نے ہم کو یعنی ہماری روحوں کو ہیکل جسمانی کے ساتھ وابستہ کیا ہے، اسی نے محض اپنے فضل عمیم، لطف کریم سے اس ہیکل کے بقاء وصحت، نشو ونما کے لیے ہرطرح کے سامان ہمارے اردگرد پھیلادیئے ہیں اور پھر اسی نے ہمارے اندر ایسی قوتیں ودیعت فرمائی ہیں، جن کی راہنمائی سے ہم ان تمام چیزوں پر تسلط حاصل کر لیتے ہیں۔ بسیط زمین اور فضاء کائنات کے اس مادی سلسلہ میں جہاں تک غور کیا جائے گا، یہ بات قطعاً واضح ہوتی جائے گی کہ انسان اپنے مادی ڈھانچے کی پرورش کے لیے جن جن چیزوں کا محتاج ہے، اس کے مہیا کرنے میں کوئی کمی نہیں کی گئی ہے۔ بدبخت نہ سوچنے والی قومیں کچھ ہی کہیں، لیکن بنی آدم کے بلند اختر قبیلوں نے اس کا اقرار کیا اور ہمیشہ اقرار کرتے رہتے ہیں۔ کاہلوں کو اپنے جسم کے پالنے میں تکلیف ہوتی ہو تو ہو، ان کے پچھتر فیصدی افراد کو چوبیس گھنٹوں کے اندر دو دفعہ بھی پیٹ بھر کر کھانا نہ ملتا ہو تو نہ ملے، لیکن قدرت پر یہ الزام غلط ہے۔ رونا اپنی عملی قوتوں کی بے کاری پر چاہیے، ماتم ان زنگ آلود جمودی طاقتوں پر کرو جو اِن سب میں ہیں، لیکن آہ! کہ کچھ دنوں سے کسی میں نہیں۔ ان کے پاس اگر سردی سے بچنے کے لیے اچھے کپڑے نہیں ہیں تو یہ جھوٹ ہے کہ خزائن السموات والارض میں ایسے کپڑے نہیں ہیں، بلکہ اصل یہ ہے کہ اس خزانہ سے حاصل کرنے کے لیے جس سعی اور کوشش کی ضرورت ہے، وہ ان میں نہیں ہے۔ قرآن حکیم کا اعلان ہے: ’’وَقَدَّرْنَا فِیْہَا أَقْوَاتَہَا سَوَائً لِّلسَّائِلِیْنَ۔‘‘  ’’اور ہم نے زمین میں تمام ذخیرے ناپ تول کر رکھ دیئے ہیں، جو ہر ایک جستجو کرنے والے کے لیے برابر ہیں۔‘‘ پس جو دروازہ کھٹکھٹائے گا اس کے لیے کھولاجائے گا، وہ جو کنڈی نہیں ہلاتا‘ اگر اس کے لیے دروازے نہیں کھلتے تو حسرت کس پرہے؟’’کتابِ روشن‘‘ میں تو تم سے کہا گیا تھاکہ: ’’ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْأَرْضَ ذَلُوْلًا فَامْشُوْا فِيْ مَنَاکِبِہَا وَکُلُوْا مِنْ رِّزْقِہٖ وَإِلَیْہِ النُّشُوْرُ۔‘‘  ’’اس نے تمہارے فائدہ کے لیے زمین کو تمہارے لیے بالکل رام کردیاہے، پس اس کے کندھوں پر چلو پھرو اور اسی کی پیداوار کو کھاؤ (اور یاد رکھو) کہ اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘‘ اویم زمیں سفرۂ عام اوست

چہ دشمن بریں خوانِ یغما چہ دوست پھر جس میں سرپوش اُٹھانے کا بھی سلیقہ باقی نہیں رہا ہے، وہ دسترخوان پر اگر نہیں بیٹھ سکتا تو اپنے سلیقہ کا ماتم کرے، خوانِ یغما کا کیا قصور؟! لیکن جہاں اس چرم و استخوانی ہیکل کی تربیت وپرورش کے لیے خالق القویٰ والقدر نے مواد کا اتنا عظیم الشان ذخیرہ پھیلادیا ہے کہ جس کی کوئی انتہا نہیں، انسان خداجانے کس زمانہ سے اس کے ختم کرنے میں مصروف ہے، لیکن وہ کسی طرح ختم نہیں ہوتے۔ وہیں یہ کس قدر عجیب اور کتنا حیرت انگیز سانحہ ہے کہ بعض سیاہ بھیجوں نے محض اپنی ازلی شقاوت اور انتہائی کورباطنی کے ساتھ قدرتِ قاہرہ جلیلہ فیاضہ پر یہ گستاخانہ اور ناپاک حملہ کردیا کہ قدرت نے اگرچہ فانی جسموں اور تباہ ہونے والے ڈھانچوں کے لیے یہ سب کچھ کیا ہے، لیکن وہ جو اصل جو ہرذات ہے اور حقیقتِ انسانیہ اسی سے عبارت ہے بلکہ واقع میں انسان وہی ہے، اس کے معاملہ میں انتہائی بخل اور غایت تنگ دلی سے کام لیاگیاہے، حتیٰ کہ اب ان چرمی زبانوں سے یہ آواز بغیر کسی تذبذب کے عام طور سے نکل رہی ہے کہ اس کے لیے اس ساری کائنات میںکچھ نہیں ہے، کائنات کے سلسلۂ حوادث کی کوئی کڑی اس مقصد کے لیے مفید نہیں۔ العظمۃ للّٰہ! یہ سنتا ہوںاور میرے ہوش وحواس پر اختلال طاری ہوا جاتا ہے، یہ کیا کہا گیا کہ اگر دانت میں کوئی معمولی سی چیز اَٹک جاتی ہے تو اس کے نکالنے کے لیے اس عالم میں ہزاروں قسم کے خلال غیر محدود مقدار میں موجود ہیں، لیکن اسی کے ساتھ یہ کیسا دعویٰ ہے کہ انسان کے دانت میں نہیں، بلکہ خود اس کے اندر اگرہمیشہ کے لیے تباہ کرنے والی چیز اَٹک جائے تو اس ساری کائنات میں اس کا کوئی علاج نہیں۔ آخر یہ کس دیوانے نے کہا اور کن ابلہوں نے باور کیا کہ ہمارے جوتوں کے میل صاف کرنے کے لیے تو اس عالم میں ہزاروں سامان موجود ہیں، لیکن اگر خودہم پر گرد پڑجائے اور ہمارے اندر میل بیٹھ جائے تو اس کے لیے فیاض قدرت نے کچھ نہیں رکھا؟! خدانخواستہ اگر ایسا ہے تو پھر قدرت کی بے مثال فیاضی جس کا ظہور ذرہ ذرہ میں بدیہی طور پر محسوس ہورہا ہے‘ کیا ایسا لفظ ہے جو کبھی شرمندۂ معنی نہیں ہوا؟! آخر ہم ان مادوں کو لے کر کیا کریںگے جو ہمارے جسم کی تو مدد کرسکتے ہیں، لیکن خود ہماری اعانت سے مجبور ہیں؟! اگر یہ صحیح ہے کہ ہمارے استخوانی ہیکل کے لیے تو سب کچھ کیاگیا ہے اور خود ہمارے لیے کچھ نہیں ہے تو پھر یقینا یہ کہنا ہی بالکل درست ہے کہ اس ہماری کائنات میں انسان کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اور یہی نہیں کہ اس ذخیرہ میں ہمارے نفع کے لیے کچھ نہیں ہے، بلکہ اس کے بعد قطعاً یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ جو کچھ بھی ہمارے سامنے ہے، اس میں انسان کے آرام وعیش وسرور ونشاط کے سامان نہیں، بلکہ دُکھ درد، تکلیف ومصیبت کی آگ بھری ہوئی ہے۔ مجھے عقل دی گئی ہے اور میرے سامنے گندھک، شورہ، سیسہ، لوہا اور اسی طرح کے دوسرے مواد پھیلادیئے گئے ہیں، تاکہ میں ان سب کو ملاجُلا کر وہ چیزیں تیار کروں جن سے انسانی جوڑ بند کھل جاتے ہیں، ترکیب اعضاء کی تباہ ہوجاتی ہے، ان کی آبادیاں خاک میں مل جاتی ہیں۔ میرے سامنے مادہ کا یہ انبار کیوں لگا یاگیاہے، جبکہ میری یعنی میری روح کی درستی کے لیے ایک تنکا بھی نہیں پیدا کیا گیا؟! اگر میری روح اور میری حقیقت کی پرورش کے لیے کچھ نہیں تھا تو پھر میرے ڈھانچے کے لیے بھی کچھ نہ ہوتا، تاکہ روحانی ضعف سے مجبور ہوکر اگر میں کچھ کرنا چاہتا تو بجائے بندوق چلانے کے صرف دانت نکال کر دوڑتا، سینگوں کی جگہ صرف اپنے ناخن سے دوسروں کو نوچتا، میرے جنوں کا اثر محدود ہوتا، میری دیوانگی عالمگیر نہ ہوتی اور بالفرض اگر کبھی میں اپنی مذبوحی حرکتوں سے تھک کر گر بھی پڑتاہوں تو اس وقت بھی ان مادوں سے مجھے کسی قسم کی تسلی نہیں ہوتی، میں اپنے پیٹ میں ان ہی مادوں کو مختلف الوان واشکال کی صورت میں ٹھونستاہوں اور چینی کی رکابیوں سے اُٹھا اُٹھا کر ٹھونستاہوں، مگر پھر جب غور کرتا ہوں تو گوکیسۂ شکم بھر جاتا ہے، لیکن مجھ میں پھر بھی وہی خلاء باقی رہتا ہے، میری اندرونی بے چینی میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوتی۔ ہم اپنی اس چرمی کالبد کو روئی کے ریشوں اور اون کے بالوں، ریشم کے تاگوں سے منڈھتے رہتے ہیں، بلکہ کبھی کبھی اس میں نمونے کے تار اور موتیوں کے ہار کو شریک کر لیتے ہیں، لیکن جب اپنے اوپر نظر ڈالتے ہیں تو اپنی حقیقی بے سروسامانی میں کسی قسم کی تخفیف نہیں پاتے۔ انسان کا جسم مادہ کی غذا تلاش کرتا ہے، لیکن خود انسان اس غذا سے اپنے اندر اطمینان کی خنکی نہیں پاتا، اور جو دیوانہ پاتا ہے وہ شاید اطمینان کی برودت وسکینت سے ہی نا آشنا ہے، شاید اس نے اطمینانی سرور کے ساتھ اس کرۂ ارضی پر کبھی سانس نہیں لی۔ ہاں! میں نے کائنات کے اس عریض وطویل سلسلے کو دیکھا اور بغور دیکھا، اس میں وہ تمام چیزیں موجود ہیں جن کی مجھے اس وقت تک ضرورت ہے، جب تک کہ اس زمین پر چل پھر رہا ہوں تو کیا جب میں یہاں سے چلا جاؤں گا اور یقینا چلاجاؤں گا تو قدرت نے میرے لیے وہاں کوئی سامان نہیں کیا؟! اگر وہاں نہیں کیا ہے تو پھر یہاں اتنی خاطر مدارات کی کیا ضرورت تھی؟! میں خوب جانتا ہوں کہ جب اس زمین سے میں اُٹھالیا جاؤںگا تو پھر میں پنجاب کے گیہوں کو نہیں دیکھ سکتا، گنگا مجھے اپنا پانی نہیں پلاسکتی، برار کی روئی وہاں نہیں جاتی، مانچسٹر کے تھان اور نیویارک کی قندیلوں کی مانگ وہاں نہیں ہے، تو کیا میں وہاں ننگا کردیا جاؤں گا، بھوک سے مروں گا، پیاس سے تڑپوںگا، اندھیرے میں بھٹکوں گا؟! آہ! کہ اگر ایسا ہے تو کیا اس زمین پر میں صرف اس لیے آیا تھا کہ میرا مذاق اُڑایا جائے؟! کیا میں واقعی کسی کا مسخرا ہوں؟! یہ چیزیں یہاں مجھے محض بطور دل لگی کے دی گئی تھیں؟! تاکہ میں جب ان سے خوش ہوجاؤں تو مجھے پاگل ودیوانہ بنانے کے لیے ان سب کو ایک ایک کرکے مجھ سے چھین لیا جائے اور میں ان کی تلاش وجستجو میں اِدھر اُھر مارا پھروں اور مذاق کرنے والا میری اس بھنگم جستجو کو دیکھ کر دل ہی دل میں خوش ہو؟! نہیں تو کیا ایسا ہے کہ اس زمین کی زندگی (یعنی خود میں) ہمیشہ کے لیے معدوم کردیا جاؤں گا، میرا اس کے بعدکچھ پتہ نہ ہوگا، نہ یہاں ہوںگا اور نہ کہیں اور ہوںگا؟! اگر ایسا ہے تو پھر فیاض قدرت جس کی جود وکرم کا یہ کچھ چرچا ہے، کیا اس نے مجھے اپنا شکار بنایا؟! وہ فیاض نہیں، بلکہ دانہ دے کر چھری پھیرنے والا صیاد ہے، کیا میرے گلپھڑے میں مادیات کا آٹا اس لیے اُتارا ہے، تاکہ جب میں اُلجھ جاؤں تو زور سے جھٹکا دیا جائے، کھینچا جائے اور پھر اس کے بعد میری ہستی ہمیشہ کے لیے برباد کردی جائے؟! تو کیا میں قدرت کی غذا ہوں یا اس شغل سے اس کا جی بہلتا ہے کہ مجھے دانے دے دے کر مارے، کاٹے تباہ وبرباد کردے؟! اللہ اللہ! اس مسافر نواز شخص کو میں کیا کہوں جس نے راہ میں میرے لیے پانی کے مٹکے رکھے، کھانے کے لیے میوہ دار درخت لگائے، درختوں کی شاخوں پر دسترخوانوں میں لپیٹ کر ہرطرح کی غذا بھی رکھ دی، میرے لیے تھوڑی تھوڑی دور پر اُس نے دھوپ اور بارش سے بچنے کے لیے فرش وفروش، لحاف وبستر سے آراستہ مکان بھی بنادیئے، یہ سب کچھ کیا، لیکن جب میں اپنی منزل پر پہنچا تو اس نے میری گردن بلا وجہ اُڑادی، میرا سامان بھی چھین لیا، حالانکہ اس کو نہ میری ضرورت تھی، نہ میرے گوشت واستخوان کی اور نہ میرے کپڑے لتے کی، یقینا اگر میری زندگی اسی خاک داں تک ختم ہوجاتی ہے تو قدرت کے متعلق بے ساختہ ہرشخص کی زبان سے وہی الفاظ نکل پڑیں گے جو اس مسافر نواز کے لیے تجویز کیے جاسکتے ہیں، کیا اس کے بعد کائنات اور اس کا مرتب نظام ایک فعل عبث، امر باطل، شغل لایعنی سے زیادہ کوئی رُتبہ حاصل کرسکتا ہے؟! لیکن الحمد للہ! کہ بجز دیوانوں کے جن کا اثر صرف ابلہوں تک محدود ہے، عالَم نے اس خیال کو جھٹلایا، اور ہمیشہ اکثریت نے اس کو جنون اور ہذیان قراردیا۔ بنی آدم کے برگزیدہ نفوس، بے لوث اور گرامی ہستیوں نے جب کبھی نظام تکوینی کے اس مرتب ومُتَّسق سلسلے کو دیکھا تو ان کی مقدس روحوں سے غیبی آوازوں میں یہ صدا آئی: ’’إِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَأٰیَاتٍ لِّأُولِیْ الْأَلْبَابِ، رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلاً سُبْحَانَکَ۔‘‘  ’’ بلاشبہ آسمان وزمین کی پیدائش اور رات دن کے اُلٹ پھیر میں کثرت سے نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جن کے اندر مغز عقل ہے، وہ ان کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ: اے پروردگار! تونے ان چیزوں کو بے کار پیدا نہیں فرمایا کہ تیری ذات لغویت سے پاک ہے۔‘‘  ہاں! یہ قطعاً غلط ہے کہ جس نے میرے گوشت کے لوتھڑوں اور ہڈیوں کی پرورش ونشوونما کے لیے یہ کچھ سامان کیا ہے، اس نے میرے لیے میری ذات کے لیے کچھ نہیں کیا، ہو نہیں سکتا کہ جس نے محض میرے جوتے کی گرد پونچھنے کے لیے طرح طرح کی چیزیں مہیا فرمائی ہوں، اس نے خود میرے لیے کچھ نہیں کیا ہے۔ بلاشبہ ہم کو یہ واثق یقین کرنا چاہیے کہ اس فیاض ہستی نے اس چیز کو بھی ضرور پیدا کیا ہے، جن کی طرف میرا جوتا اور میری چھڑی نہیں بلکہ خود میں محتاج ہوں، میری ذات محتاج ہے، میری حقیقت محتاج ہے، جن کا سراغ مواد کے ذخیروں میں نہیں ملتا، لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ جو اس ذخیرے میں نہیں ہے وہ واقع میں بھی نہیں ہے، تو کیا قدرت اس قدر عاجز ولاچار ہے کہ اس کی ساری ایجادی زورآزمائیوں کا دائرہ اسی کثیف مادے تک محدود ہے؟! کیا وہ اس سے زیادہ لطیف، زیادہ قدوس، زیادہ پاکیزہ چیز نہیں پیدا کرسکتی جس کو ہمارے جسم سے نہیں، بلکہ ہماری لطیف ذات سے مناسبت ہو؟! اس مادی ذخیرہ میں جتنی چیزیں ہیں ان کا سلسلہ فقط میرے مادۂ جسدی سے مل سکتاہے، لیکن جس چیز کی قدر میرے گوہر پاک کو ہے، اگر وہ ان تاریک وظلماتی ڈھیر میں نہیں ملتی تو کوئی حرج نہیں کہ وہ اس میں مل بھی نہیں سکتی، مگر پھر بھی اگر وہ مادی کائنات کے دائرہ میں نہیں تو کائنات کے دائرہ میں ضرور ہے، کیونکہ ہم بھی اسی کائنات میںاس لیے ہیں، اس کو بھی اسی کائنات میںہونا چاہیے۔ نازک احساس والوں نے آخر اُسے ڈھونڈا اور اسی کائنات کے احاطہ میں پالیا، حتیٰ کہ آخر میں یہ ان ہی کا اعلان ہے کہ یہ امر مقدس قدرت کی فیاضیوں کا وہ پاک سلسلہ ہے جس کو ہم کبھی وحی، کبھی نبوت، کبھی رسالت کے لفظوں سے تعبیر کرتے ہیں،کمزور بھیجوں کے انسان کہتے ہیں کہ ان ضرورتوں کے لیے ہم قدرت کی طرف سے بے نیاز ہیں، ان حاجتوں کو خود ہمارا دماغ پورا کرسکتا ہے اور کرتا ہے، لیکن جو انسان اپنی ایک معمولی پھنسی کے لیے قدرت کی طرف ہاتھ پھیلانے کے لیے مجبور ہے، وہ کس طرح مدعی ہوسکتا ہے کہ اس کے جسم میں نہیں، بلکہ خود اس کے اندر جو گھاؤ ہیں ان کو وہ بغیر تائید قدرت کے اچھا کر لے گا؟! اگر اس پر بھی وہ مصر ہے تو اس دیوانے کو چھوڑ دو، تاکہ اس کا زخم زخم بوزینہ بن کر رہے، وہ اسی کے اندر تڑپے پھڑکے، مر بھی نہیں سکتا کہ یہ پھوڑا اس کے جسم میں نہیں، بلکہ اس کی جوہر ذات میں ہے، انسان اپنے جسم کو چھوڑ سکتا ہے اور چھوڑ دیتا ہے،پھر اپنے آپ کو اپنے سے کس طرح علیحدہ کر سکے گا؟! لیکن ایک عقلمند یہ کبھی نہیں کرسکتا، وہ جب اپنی مونچھ کے بالوں کے تراشنے کے لیے بھی لوہے کی کان میں جھانکنے کے لیے اپنے کو مجبور پاتا ہے تو پھر اس کی سمجھ میں یہ کس طرح آسکتا ہے کہ اپنی ذات کی غیر فطری صفات کی قطع وبرید کے لیے قدرتی چیزوں سے بے نیاز رہے؟! وہ جس سے اپنی جسدی ضروریات کو مانگتا ہے اور اس سے مانگنے میں نہیں شرماتا، اسی سے اپنی ذاتی حاجات کو بھی طلب کرے گا، اور طلب کرتا ہے، پاتا ہے، کامیاب رہتا ہے، کامیاب جاتا ہے اور ہمیشہ کامیاب رہے گا: ’’أُولٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔‘‘۔۔۔۔۔ ’’یہی لوگ کامیاب ہیں۔‘‘ اس کی نگین ہستی پر ہمیشہ کے لیے منقوش کردیا جاتا ہے۔ بہرحال بات کہاں سے کہاں پہنچی، میں کہنا یہ چاہتا تھا کہ: جس طرح ہیکل جسمانی کے لیے مواد کا ایک اجمالی ذخیرہ ہمارے سامنے موجود ہے، جس کو ہم ’’مادی کائنات‘‘ کہتے ہیں اور روز مرہ اپنی جسمانی ضرورتوں کو اسی سے نکال نکال کر پوری کررہے ہیں،ٹھیک اسی طرح سلسلۂ موجودات میں ایک ایسی چیز بھی ہے جو ظاہراً اسی طرح مجمل ہے جس طرح مثلاً زمین کا مادہ، لیکن جب سوچنے والوں اور ڈوبنے والوں نے اس کی تحلیل وتفصیل کی تو انسانوں کے لیے ان منافع کا ایک دریا بَہ پڑا، جن کا تعلق انسان کے جوہر ذات اور اصل حقیقت سے ہے اور اسی سلسلہ کو ہم ’’روحانی کائنات‘‘ کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسی مقدس سلسلۂ فیوض نے آغازِ آفرینشِ بنی آدم سے ہمیں بتایا کہ مواد کے استعمال کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ ہم ان کو بجائے خوں ریزی، شرانگیزی، جنگ وقتال کے اپنی سلامتی اور امن وآسائش کا ذریعہ کس طرح بنا سکتے ہیں؟! سچی مدنیت، پاکیزہ مسرت افزاء حضارت کیونکر پیدا ہوسکتی ہے؟! اجتماعِ افراد کو مفاسد، وخبائث، شرارت اور بے چینی کے زہروں سے کس طرح مُصَفَّا کیا جاسکتا ہے؟ پھر اسی قدوس فیض قدرت نے ہمیں سمجھایا کہ جب ہم اس زمین کو چھوڑ دیںگے تو پھر ہم کہاں جائیںگے؟ اور وہاں پُرامن زندگی‘ سلامتی اور راحت کے ساتھ کیوں کرمل سکتی ہے؟! اسی نے یہ بھی بتایا کہ اس کائنات کی اصلی غرض کیا ہے؟ مواد کا اتنا طویل وعریض جال کس لیے بچھایاگیاہے؟ اور انسان اس پر کس لیے قابض ہے؟! کائنات اگر اس کے لیے ہے تو خود وہ کس کے لیے ہے؟! ہم نے قدرت کی اس رحمتِ عامہ کو پہچانا، دیکھا، سمجھا اور اسی کے بعد وہ تمام نجس باتیں برباد ہوگئیں، جو قدرت کی تنگ نظری یا عبث کاری کے متعلق ناپاک کھوپڑیوں میں پیدا ہوتی تھیں، اس کی رحمتِ عام، اس کا فیضِ محیط، اس کی خبر گیری ہمہ گیر نظر آئی، اس نے میرے جوتے کی بھی خبر لی، اس نے میرے بال سنوارنے کا بھی سامان کیا، اس نے میرے ناخن تراشنے کے لیے بھی چیزیں دیں اور اسی کے ساتھ اس نے خود میری اصل ذات کے لیے جو کچھ بھی چاہیے تھا سب کچھ دیا، اور سیر چشمی کے ساتھ دیا، اہتمام کے ساتھ دیا: ’’وَإِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ لَاتُحْصُوْہَا۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’اگر تم خدا کی نعمتوں کو گننا چاہوگے تو گن نہیں سکتے۔‘‘ اور یہی پیغام ان والاصفات ، گرامی سمات، بے غرض مقدسین کا ہے جن کو ہم ’’انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات‘‘ کے مظہر عنوان سے یاد کرتے ہیں، صلوات اللّٰہ وسلامہٗ علیہم أجمعین۔ کائنات کے اس سلسلہ کا ظہور کبھی نوح m، کبھی ابراہیم m، کبھی موسیٰ m یا اسی قسم کے دیگر برگزیدہ ارواحِ طیبہ کے ذریعہ سے ہوا اور اخیر میں وہ ایک نہایت مضبوط اور مستحکم اصولوں کے ساتھ بنی آدم کے فردِ اعظم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وعلیٰ آلہ واصحابہ کے قلبِ قدوس سے بیابانِ فاراں میں قرآن کے فطرت آرائ، بصیرت افروز شکل میں چہرہ پرداز ہوا، جیساکہ خود اسی’’نورِمبین‘‘ کی روشنی میں ہم پڑھتے ہیں: ’’شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدَِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖ إِبْرَاہِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰی۔‘‘  ’’تم لوگوں کے لیے وہ راہ خدانے مقرر کی جس کی وصیت نوح کو کی گئی اور جس کو (اے پیغمبر!) ہم نے تم پر اُتارا اور جس کی وصیت ہم نے ابراہیم وموسیٰ وعیسیٰ(B) کو کی۔‘‘ روحانی منافع کا یہ ذخیرہ‘ اصل حقیقت کے اعتبار سے ہمیشہ ایک رہا ہے، لیکن زمانہ کے تغیرات وتبدلات کے اعتبار سے اس میں بعض جزئی محاسن واوصاف کا اضافہ ہوتارہا، یہاںتک کہ ایک وقت وہ آیا کہ اس معدن میں جن جن چیزوں کا پیداہونا ضروری تھا سب پیدا ہوگئیں اور ہر حیثیت سے بنی آدم کے اولیٰ وادنیٰ کے لیے کافی ووافی، کامل واکمل ہوکر ایک اکمل ترین روح کے ذریعہ سے نسل آدم کو سونپ دیاگیا اور الحمد للہ! کہ وہ اپنے تمام محاسن وجمال کے ساتھ اس وقت تک موجود ہے، لیکن میں کہہ آیاہوں کہ قدرت نے ہم کو جو کچھ بھی دیا ہے، محض مجمل دیاہے، اصل شئے وہیں سے آئی ہے، خواہ روحانی ہو، یامادی، باقی ان کی تشریح وتفصیل بھی انسانی کوششوں کے ساتھ وابستہ ہے۔ میں نے کہا تھا کہ باوجود ا س بات کے کہ اسی زمین میں ہماری تمام ضرورتیں پوشیدہ اور مستور ہیں، لیکن ان ضرورتوں سے ہم اس وقت تک مستفید نہیں ہوسکتے جب تک کہ اس کے اندر غور نہ کریں، اپنی اِدراکی اور تفتیشی قوتوں کو اس کے اندر غرق نہ کریں۔ بجنسہٖ قرآن کا بھی یہی حال ہے کہ ظاہراً وہ بالکل ایک مختصر سی کتاب اور نہایت ہی مجمل سی چیز نظر آتی ہے، لیکن روحیں اسی میں ڈوبتی ہیں، گھستی ہیں، حتیٰ کہ جب نکلتی ہیں تو کوئی ابوبکر صدیقؓ اور عمر فاروق (رضی اللہ تعالیٰ عنہما) ہوجاتا ہے، کوئی امام اعظم ابوحنیفہؒ بنتا ہے، کسی کو غوث اعظمؒ کا رُتبہ ملتا ہے، کوئی حجۃ الاسلام غزالیؒ اور کوئی مولائے معنویؒ کے القاب سے نوازا جاتا ہے۔اور میں تم کو کیا بتاؤں کہ کیا دیکھتا ہے اور دیکھ کر کیا بنتا ہے؟ وہ اس کے اندر جاکر کیا سمجھتا ہے اورپھر اس سے کیا نکالتا ہے؟ جو اس میں نہیں پڑا وہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے متعلق بہت کم اندازہ کرسکتا ہے۔ کم از کم اسی مثال سے سمجھو کہ ظاہراً اس پانی میں تمہیں کیا بجلی نظر آتی ہے؟ لیکن جس نے غوطہ لگایا اس نے اسی میں اس کو پایا۔ بہرحال میں نہایت تفصیل سے بتا آیا ہوں کہ مجمل مادہ میں ظاہراً کچھ نہیں، لیکن سوچنے والے وہ سب کچھ اسی سے نکال لیتے ہیںجن کا تعلق مادۂ انسانی سے ہے۔ پس اسی طرح گو تمہیں قرآن کے چند گنے گنائے اوراق میں شاید کوئی زیادہ اہمیت خیز شئے نظر نہ آئے، اگرچہ یوں بھی وہ کس کو بغیر تڑپائے چھوڑتا ہے، تاہم قرآن چونکہ قدرتی چیزوں میں سے ہے، اس لیے وہ کوشش اور سعی کو دعوت دیتا ہے، ہرشخص اپنی کوشش کی مقدار سے اس سے حصہ پائے گا، جس طرح مادہ کے اسرار میں بھی جو جتنی کاوش کرتا ہے پاتا ہے۔ قرآن کے اس قدرتی اجمال کی طرف جوہر ایک قدرتی شئے میں بیّن طور پر نمایاں ہے، خود مہبطِ وحی(a) نے ان لفظوں میں اشارہ فرمایا: ’’لاتشبع منہ العلماء ولایخلق علٰی کثرۃ الرد ولاتنقضی عجائبہٗ۔‘‘  (رواہ الترمذی) ’’اہل علم (دانش) اس سے (قرآن سے) کبھی سیر نہیں ہوسکتے، وہ کثرت سے باربار دُہرانے کے بھی کبھی پرانا نہیں ہوسکتا، اس کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہوسکتے۔‘‘ دیکھو! ٹھیک جس طرح دنیا اس زمین کی پیداواروں سے کبھی سیر نہیں ہوسکتی، مادے کے ایک راز کے اکتشاف کے بعد طبعاً متجسس طبائع دوسرے اسرار میں مشغول ہوجاتے ہیں اور کسی طرح اس سے نہیں گھبراتے۔ آنحضرت a قرآن کے متعلق بھی یہی ارشاد فرماتے ہیں کہ: اس سے علم کے متلاشی کبھی سیر نہیں ہوسکتے کہ اس کے ہرناموس (راز) کے بعد دوسرا ناموس اپنی طرف بلاتا ہے۔ تم دیکھ رہے ہو کہ خدا جانے کتنے زمانہ سے انسان اس مٹی کو کُرید کُرید کر منافع حاصل کررہا ہے! ہرسال اسی زمین کو جوتتا ہے، اس میں دانے ڈالتا ہے، فصل کاٹتا ہے، لیکن پھر چند ہی مہینوں کے بعد اس کے ہل بیل اسی زمین پر موجود نظر آتے ہیں۔ غرض یہ ہے کہ باوجود اس اُلٹ پھیر کے یہ زمین کسی طرح پرانی نہیں ہوتی۔ ٹھیک یہی قرآن کے متعلق ارشادِ نبوی ہے کہ یہ جتنی دفعہ دُہرایا جائے گا پرانا نہیں ہوگا، اور ہمیشہ نئی فصل اس سے ہاتھ لگتی رہے گی، اس لیے آپa نے ایک دوسرے موقع پر ارشاد فرمایا:’’نعم الحال المرتحل‘‘ ۔۔۔۔ ’’کیا اچھا ہے وہ شخص جو اُترنے کے بعد پھر سوار ہوجاتا ہے۔‘‘ (یعنی) قرآن ختم کرنے کے بعد پھر شروع کردیتا ہے۔  پھر دیکھو! مادہ کے عجائبات مادی ضرورتوں کے لیے کبھی ختم نہیں ہوسکتے، نت نئی چیزیں اس سے روزانہ اُبل رہی ہیں، پس وہ چیز جو روح ہے اس کے عجائبات بھی روحانی منافع کے باب میں کبھی ختم نہیں ہوسکتے، جیساکہ ابھی ارشادِ نبوی میں گزر چکا، اس کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہوسکتے۔ اور یہی نہیں، اس قدرتی مادے کے حالات وکوائف، خصائص واوصاف پر ہم جہاں تک غور کرتے ہیں، اسی سے اس قدرتی روح کی بھی شرح ہوتی چلی جاتی ہے، تم دیکھتے ہو کہ کبھی کبھی اس مادی کائنات کے بعض اجزاء میں سخت بے ربطی نظر آتی ہے، مثلاً: ایک مدت تک یہ دیکھا جاتاتھا کہ سمندر میں جزرومد‘ چاند کے زوال وکمال کے ساتھ پیدا ہوتا ہے، لیکن اسرارِ مادی کے تلاش کرنے والوں پر بالکل نہیں کھلتا تھا کہ آخران دونوں میں کیا ربط ہے؟! حتیٰ کہ سوچنے اور غور کرنے کے بعد آخر یہ راز فاش ہوگیا اور عام طور سے مشہور ہے۔ اسی طرح بارش، آفتاب، مون سون، سمندر، ان چیزوں میں مدتوں بے ربطی نظر آتی رہی، لیکن اب سمجھا جاتا ہے کہ ان سے زیادہ مضبوط ربط اور کسی چیز میں بھی نہیں۔اور اسی پر کیا موقوف ہے بعض مسخروں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اللہ میاں نے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ستاروں کو کوٹھی میں بھر کر فضائے آسمانی میں چھڑک دیا کہ ان میں کوئی نظام نہیں ہے، لیکن علم النجوم کے ماہرین سے جاکر پوچھو کہ وہ کیا کہتے ہیں؟ کیا اس سے زیادہ مرتب نظام وہ کہیں اور پاتے ہیں؟! ٹھیک اسی طرح ہم کبھی کبھی ’’روحانی کائنات‘‘ (قرآن) کے بعض اجزاء میں سخت بے ربطی محسوس کرتے ہیں اور چونکہ اس کو مصنوعی کلام پر قیاس کیا جاتا ہے، اس لیے بسااوقات کوئی ربط پیدا بھی نہیں ہوتا،لیکن اخبارِ اسلام جو قرآن کو انسانی کلام پر نہیں، بلکہ اسی جیسی دوسری کائنات پر قیاس کرتے ہیں تو ان کے سامنے تمام اسرار اسی ربط کے دریافت کرنے میں مستور نظر آتے ہیں،حتیٰ کہ جس طرح آج کائناتِ مادی کی بنیاد وحدت پر قائم کی جاتی ہے اور کہا جاتاہے کہ گو بادی النظر میں یہ تمام چیزیں جداجدا نظر آتی ہیں، لیکن واقع میں یہ سب ایک ہی زنجیر میں جکڑی ہوتی ہیں، یہ دعویٰ علماء قرآن کا بھی ہے۔ مادہ کا متلاشی کہتاہے کہ ہمارا سارا فلسفہ یہی ہے کہ مادی موجودات کے باہمی ربط کو دریافت کرلیں،اسی طرح روح کامتجسس کہتا ہے کہ ہمارا سارا عالم یہی ہے کہ ’’روحانی موجودات‘‘ یعنی آیاتِ قرآنی کے باہمی ربط کا پتہ چلالیں۔ بہرحال ان کا دعویٰ یہی ہے کہ قرآن کوئی انسانی تالیف اور بشری صناعت نہیں ہے، بلکہ وہ ایک قدرتی حقیقت ہے، پس اُسے ہمیشہ اسی نقطۂ نظر سے دیکھنا چاہیے جس سے اور قدرتی چیزیں دیکھی جاتی ہیں، اس کو اُسی طرح پڑھنا چاہیے جس طرح ہم اس مادی صحیفۂ فطرت کو پڑھتے ہیں، اس کی ہرآیت کو ایک مستقل موجود اسی طرح قرار دینا چاہیے جس طرح اس مادی کائنات کے ہر موجود کو قرار دیاگیا ہے اور جس طرح مادی کائنات کے خاص خاص موجود کے لیے خاص خاص علم بنائے گئے ہیں، مثلاً: درخت کے لیے ایک خاص علم ہے، پانی کا ایک خاص فن ہے، الیٰ غیر ذلک ، اسی طرح قرآن کی ہرآیت بھی یہی چاہتی ہے کہ اس کے ماننے والے اس کی ہر آیت کے لیے ایک مستقل فن بنائیںاور اسی طرح ہم ’’روحانی کائنات‘‘ کے فوائد سے اسی طرح متمتع ہوسکتے ہیں جس طرح ’’مادی کائنات‘‘ کے منافع سے فائدہ اُٹھارہے ہیں،وہ ایک مستقل علم ہے، اور اسی لیے قرآن کے لیے ان تمام لوازم کی جستجو کرنی چاہیے جن کی تلاش ہم مادی علم میں کرتے ہیں، حتیٰ کہ اسی بنیاد پر بلاکسی خوفِ تردید کے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح اس مادی عالم کے بعض اجزاء سے ہمارے جسدِ استخوانی کو کبھی کبھی نقصان پہنچ جاتاہے، ٹھیک یہی حال ’’روحانی کائنات‘‘ کی ہستیوں کا ہے، ایسا ہوتا ہے اور بسااوقات ہوتا ہے کہ کبھی کبھی اسی کے بعض اجزاء سے بجائے کسی نفع کے حقیقتِ انسانیہ وروح کو ضرر اور ضررِ عظیم پہنچ جاتا ہے، اس کی طرف خود قرآن نے بھی اشارہ کیا:’’یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا وَّیَہْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا‘‘۔۔۔۔۔’’ اسی قرآن سے بہت سی (روحوں) کو خدا گمراہ کرتا ہے اور بہتوں کو سیدھی راہ پر لے چلتاہے۔‘‘ لیکن العیاذ باللہ! اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان اجزاء اور آیتوں کو خداوندِ رحمن نے ضررپہنچانے کے لیے اُتارا ہے، کیونکہ اس کا امکان ’’روحانی کائنات‘‘ میں توخیر اس ’’مادی کائنات‘‘ میں بھی نہیں، بلکہ اصل یہ ہے کہ اس عالم میں ہو یا اُس عالم میں اصل ذات کے اعتبار سے نہ کوئی چیز بے کار ہے اور نہ مضر، لیکن اسی کے ساتھ ہر چیز کے استعمال کا ایک قانون اور خاص طریقہ ہے، مثلاً: فرض کرو کہ اس عالم میں اُپلے بھی ہیں، گیہوں بھی ہیں، کون کہہ سکتا ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی بے کار مضر ہے؟! لیکن فرض کرو کہ کسی نے اُپلے کورکابی میں چور کر کھانا شروع کیا، اور گیہوں کو ایندھن میں جھونک دیا تو یہ قصور نہ اُپلے کا ہوگا اور نہ گیہوں کا، بلکہ یہ طریقۂ استعمال کی ناواقفیت کا نتیجہ ہے اور یہ تو ایک مثال ہے، میں تم سے سچ کہتاہوں کہ جن لوگوں کو ہرچیز کے استعمال کا طریقہ معلوم ہے، ان کے نزدیک اس عالم کی کوئی چیز نہ بے کار ہے اور نہ مضر، وہ سب ہی کو مفید سمجھتے ہیں اور حسبِ استطاعت ہرایک سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ پس قرآنی کائنات (آیات) سے اگر بجائے ہدایت کے کسی میں ضلالت کے جراثیم پیدا ہوں تو اس میں کیا شبہ ہے کہ یہ اس آیت کا قصور نہیں ہے، بلکہ اس احمق کی جہالت اور علمی سرکشی کا نتیجہ ہے؟! خود مُنزلِ قرآن جل وعلا شانہٗ نے اس کی تصریح ان لفظوں میں فرمائی:’’وَمَا یُضِلُّ بِہٖ إِلَّا الْفَاسِقِیْنَ‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔ ’’اور قرآن سے خدا نہیں گمراہ کرتا مگر محض فاسقوں کو۔‘‘ جو اس روحانی کائنات کے طریقۂ استعمال اور قانونِ تناسب سے واقف نہیں ہے اور وہ ان فطرتی حدود کو جو ہرایک آیت کے استعمال کے لیے مقرر ہیں پروا نہیں کرتا، اسی کو ’’فاسق‘‘ کہتے ہیں۔ اس لیے اگر نادانوں کو قرآن سے کوئی نقصان پہنچا تو یہ ان کے ہی نقص کا خمیازہ ہے: ’’ وَلَایَحِیْقُ الْمَکْرُ السَّیِّئُ إِلَّا بِأَہْلِہٖ‘‘ اور یہی نہیں بلکہ تم دیکھتے ہو کہ کبھی کبھی ہمارا ہیکلِ جسمانی کچھ اس طرح مریض ہوجاتاہے کہ مادی عالم کا ہر جزء اور اس کی ہرایک چیز جسم کے لیے مضر ہوجاتی ہے، حتیٰ کہ دنیا کی مفید سے مفید چیزیں ایسے وقت میں انسانی جسد کے لیے زہر قاتل کا کام انجام دیتی ہیں۔ ٹھیک یہی حال اس ’’عالم روح‘‘ کا بھی ہے کہ کبھی نہ صرف اس کی بعض آیتیں، بلکہ مسلم قرآن ان لوگوں کے حق میں سمِّ قاتل ہوجاتا ہے جنہوں نے اپنی روحانی صحت برباد کرلی ہے، اس مسئلہ کو خود قرآن نے واضح کیا ہے: ’’وَإِذَا مَا أُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ فَمِنْہُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ أَیُّکُمْ زَادَتْہُ ہٰذِہٖ إِیْمَانًا، فَأَمَّا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا فَزَادَتْہُمْ إِیْمَانًا وَّہُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ، وَأَمَّا الَّذِیْنَ فِيْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ فَزَادَتْہُمْ رِجْسًا إِلٰی رِجْسِہِمْ وَمَاتُوْا وَہُمْ کَافِرُوْنَ۔‘‘ ’’اور جب کوئی سورت اُتاری جاتی ہے تو ان میں کچھ تو ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ تم میں سے کس کس کے اندر اس سورت نے ایمانی قوت کا اضافہ کیا؟ پس ایمان والوں کا تو یہ حال ہے کہ ان کے ایمان میں اس سے بالیدگی پیدا ہوتی ہے اور اپنی اس (روحانی مسرت) پر ایک دوسرے کو خوشی کا پیغام سناتے ہیں، مگر وہ لوگ جن کے دل میں بیماری ہے تو پھر بھی سورت ان کی نجاست پر نجاست کا اضافہ کرتی ہے، وہ مرجاتے ہیں اور کافر مرجاتے ہیں۔‘‘ بہرحال آیاتِ قرآنی سے اگر کسی کی نجاست پر نجاست کا اضافہ ہوتا ہو تو اس میں قصور اس شخص کا ہے جس نے حدود اللہ کی حفاظت نہ کی، اور ہرطرح کے خیالات کو بغیر کسی آئین وقانون کے اپنے اندر اُتارتا چلاگیا، حتیٰ کہ ان ہی بے اعتدالیوں نے آخر اس کی صحت برباد کردی اور جس کی صحت خراب ہوجاتی ہے کیا شبہ ہے کہ اس کے حق میں اعلیٰ سے اعلیٰ، مفید سے مفید چیزیں بھی بد سے بدتر ہوجاتی ہیں! اور اسی لیے دونوں عالم کے موجودات سے فائدہ اُٹھانے کے لیے اس کی سخت ضرورت ہے کہ انسان کے اندر صحیح اور سچی قوتِ ممیزہ ہو اور پھر ہر موجود کے طریقۂ استعمال سے بھی واقف ہو۔ ممکن ہے کہ بعضوں میں یہ قوتِ تمیزی فطری طور پر موجود ہو، لیکن اکثر افرادِ انسانی اس کے لیے اکتساب وتعلیم کی طرف محتاج ہیں، خواہ کسی مدرسہ میں ہو یا جاننے والوں کی محض صحبت میں، خصوصاً ’’روحانی کائنات‘‘ کی چیزیں چونکہ بہت زیادہ لطیف اور بہت زیادہ دقیق ونازک ہیں، اس لیے اس کے حدود ومنازل اور طرقِ استعمال کے لیے روحانی بصیرت اور دلی تَنَوُّر کی ضرورت ہے، جو بغیر کسب وریاضت کے مشکل ہی سے دستیاب ہوسکتا ہے۔ اسرار وحقائق کا یہی پاک سلسلہ ہے جو درجہ بدرجہ ترقی کرتاہوا اَخیر میں اسلام کے اس طائفہ منصورہ (جس کی نصرت اللہ کا کلام قرآن کرتا ہو) کے یہاں علیٰ وجہ الکمال بے نقاب ہوجاتا ہے، جن کو ہم’’ صوفیاء کرام اور اولیاء اللہ‘‘ کہتے ہیںاور خاص اصطلاح میں ان کا سچا نام’’ صدیقین‘‘ ہے، رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم ورضوا عنہ، کثر اللّٰہ وجودَہم فی الإسلام والمسلمین فإنہم دعائم الدین وأرکانہٗ ۔ اَخیر میں مجھے اسی ’’روحانی کائنات‘‘ کے ایک اور پہلو کی طرف اشارہ کرنا ہے، فرض کرو کہ کوئی احمق یہ ارادہ کرتا ہے کہ ہم اپنے مادی شکم کو بغیر اعانتِ مادہ کے بھر لیںگے تو اس کا آخری حشر بجز موت کے اور کیا ہوسکتا ہے؟! حالانکہ اس مادہ کی طرف خود وہ نہیں، بلکہ اس کا ہیکلِ چرمی محتاج ہے، جو ممکن ہے کہ روح کے قوی کرنے سے کچھ دن اس کا ساتھ دے سکے۔ اسی طرح قرآن کے متعلق بھی سردارِ دوجہاں a نے یہی ارشاد فرمایا:  ’’ومن ابتغی الہدی في غیرہٖ أضلہ اللّٰہ۔‘‘   ’’جو شخص قرآن کے سوا اور کسی چیزمیں ہدایت کی جستجو کرتا ہے خدا اُسے بھٹکا دے گا۔‘‘ بلاشبہ جب مادی جسم مادہ سے مستغنی نہیں ہوسکتا اور اس کی بقاء کے لیے ہروقت اجزاء مادیہ کی ضرورت ہے تو پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک انسان جس کی اصل ذات ’’روح‘‘ ہے، وہ بغیر روحِ قرآنی کے اپنی اصلی زندگی کو قائم رکھ سکتا ہے یا اس کو کسی اور چیز سے حاصل کرسکتا ہے؟ یہ گمراہی سرکشوں کو ابھی نہیں معلوم ہوتی، لیکن جب روح کی راہوں کی تلاش کا وقت آئے گا اس وقت یہ حقیقت خود بخود بے نقاب ہوجائے گی۔ جو برسات میں اپنی کاشت کا انتظام نہیں کررہا ہے تو اُسے چھوڑ دو، فصل کٹنے کے وقت اپنی حماقت پر خون کے آنسو روئے۔ علی الخصوص مجھے اس قوم تک یہ خبر ضرور پہنچا دینی چاہیے، جس نے قرآن کی حفاظت ونگرانی، عمل واستعمال کا عہد باندھا ہے کہ اس کے لیے تو شاید آنے والے دن کا بھی انتظار کرنا نہ پڑے اور قبل اس دن کے وہ اسی زمین پر تباہ وبرباد ہوجائے۔ آنحضرت a نے اس کے بعد ارشاد فرمایا تھا: ’’من ترکہٗ من جبار قصمہ اللّٰہ‘‘  ’’اور جو جبر وعناد کی وجہ سے قرآن کو چھوڑ دے گا، خدا اُسے توڑدے گا۔‘‘ دنیا کی اگر دوسری قومیں اس ’’روحِ عرشی‘‘ کی قدر وعزت نہیں کرتیں تو زیادہ تر اس کی وجہ جبر وعناد نہیں ہے، بلکہ جہل ولاعلمی ہے، پھر وہ قوم جو یہ یقین کرتی ہے کہ یہ ’’کائنات‘‘ بھی اس کی نازل کی ہوئی ہے، جس نے ’’مادی کائنات‘‘ کو پیدا فرمایا اور یہ بھی جانتی ہے کہ اس کے علاوہ روحانی ہدایت اور کہیں نہیں مل سکتی،اس کے بعد وہ جس بری طرح اس سے اعراض کررہی ہے تو اس کی علت بجز ’’جباریت‘‘ کے اور کیا قرار دی جائے؟ مسلمانوں کی تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی اور جہاں کہیں بھی اُنہوں نے قرآن کو چھوڑا، خداوندِ قدوس نے ان کو وہیں توڑدیا۔ اندلس میں قرآن ماننے والی قوم جاتی ہے، رہتی ہے ، کھاتی ہے، پیتی ہے، کچھ دن اس کا اشتغال قرآن کے ساتھ رہتا ہے، لیکن یکایک اس کا خیال بدل جاتا ہے اور ارسطو کا فلسفہ، بطلیموس کی ریاضی اُسے پاگل بنادیتی ہے، قرآن کی عظمت ا س کے دل سے جاتی رہتی ہے، یہاں تک کہ اخیر میں اس کا مشغلہ فلسفہ اور ادب کے علاوہ اور کچھ نہیں رہتا ہے اور اسی کے ساتھ یہ سچی پیشگوئی کہ جس نے جبر وعناد کے ساتھ قرآن کو چھوڑا، خدا اُسے توڑ دیتا ہے‘ ان پر صادق آجاتی ہے: ’’فَتِلْکَ مَسَاکِنُہُمْْ لَمْ تُسْکَنْ مِّن بَعْدِہِمْ إِلَّا قَلِیْلًا۔‘‘  ’’(وہاں جاکر دیکھ آؤ) یہ ان کے مکانات ہیں، جو ان کے بعد زیادہ دن تک آباد نہ رہ سکے۔‘‘ دجلہ کے کنارے یہی قرآن پڑھنے والی قوم آئی بھی اور مدتوں رہی، لیکن رفتہ رفتہ قرآن سے اس کا تعلق کمزور ہوتا گیا، حتیٰ کہ جب یونانی فلسفہ نے نصیر الدین طوسی اور علامہ سمرقندی جیسے لوگوں کو پیدا کیا اور قرآن سے اس قوم کا رشتہ بالکل ٹوٹ گیا تو تم نے دیکھا کہ خدانے بھی ان کو کس طرح توڑدیا؟ ’’أَتَاہَا أَمْرُنَا لَیْلًا أَوْ نَہَارًا فَجَعَلْنَاہَا حَصِیْدًا کَأَنْ لَمْ تَغْنَ بِالْأَمْسِ۔‘‘  ’’ان پر ہمارا حکم رات یا دن کو آگیا، پھر ہم نے ان کو کاٹ کر رکھ دیا اور اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کل گویا آباد ہی نہ تھی۔‘‘ تم نے سنا ہوگا کہ اسی قوم کا ایک جرگہ‘ جمنا کے ساحل پر بھی خیمہ زن ہوا تھا، اس نے اس کے کنارے بڑی بڑی عمارتیں بنائیں اور مدتوں آرام کیا، حتیٰ کہ اسی جرگہ کا ایک بادشاہ تھا اور اس نے قرآن کو محض اپنے جبر اور استکبار کے ساتھ چھوڑا، اس نے ہدایت کی تلاش قرآن کے علاوہ اور دوسری چیزوں میں شروع کی، حتیٰ کہ اس کے دربار میں بجز شعر وشاعری، دماغی عیاشی کے اور کچھ نہ رہا، قرآن کو اس زمانہ میں کسی نے چھوا بھی تو فقط اس لیے کہ اپنا زورِ قلم دکھائے، عربی لغت میں جو اس نے عبور حاصل کیا تھا اس کا ثبوت دنیا کے سامنے پیش کرے، پھر کیا حال ہوا اس قوم کا؟ تم کو میں کیا بتاؤں؟ جاؤ! دلی کے کھنڈروں کی زبانی اس افسانہ کو سنو، آگرہ کے در ودیوار سے اس کا قصہ پوچھو! اللہ اللہ! کتنا دردناک منظر تھا؟ اس قرآن پر ایمان لانے والی قوم کا کہ اسی بادشاہ کے پوتوں اور پروتوں نے یہ فیصلہ دیا کہ قرآنی تعلیم بت پرستوں کی مفروضہ کتابوں سے ماخوذ ہے، مذہبی مدارس وتعلیم گاہوں میں بھی بجز ہیولیٰ اور صورتِ جسمیہ کے اور کسی کا تذکرہ باقی نہ رہا، قرآن درس سے خارج تھا، حدیث وآثار پڑھنے کی چیز نہ سمجھی گئی، سنبھالنے والوں نے سنبھالنا چاہا، لیکن پانی سر سے گزرگیا تھا اور خدا کی بات پوری ہونی تھی: ’’فَدَمْدَمَ عَلَیْہِمْ رَبُّہُمْ بِذَنْبِہِمْ فَسَوَّاہَا۔‘‘   ’’پھر چھاگیا اُن کا خدا اُن پر اُن کے گناہوں کی وجہ سے اور اُن کو برابر کردیا۔‘‘ حتیٰ کہ تختِ طاؤس کا وارث عالم غربت میں بصد بے نوائی وکس مپرسی ایک سمندر کے کنارے گوڈر میں لپیٹ کر دفن کردیا گیا اور یہ تھا اس بدبخت قوم کا آخری انجام، جس نے خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر انسانی خیالات کی پیروی شروع کی۔(۱)

حاشیہ:۱…         یہ اشارات ہیں، لیکن یہ واقعہ ہے کہ اندلسی مسلمانوں کی دماغی روش کا اندازہ حضرت شیخ ابن عربی v کی کتابوں سے مل سکتا ہے کہ وہ قرآنی حقائق کو فلسفی اصطلاحوں میں سمجھانے پر مجبور ہیں، کیونکہ ان کی مخاطب قوم فلسفہ کے علاوہ اور کسی چیز سے متاثر نہیں۔ امام رازیv دولتِ عباسیہ کے ایامِ انحطاط میں اپنی تفسیر لکھتے ہیں اور طبیعیات والٰہیات ، ریاضیات سب ہی کو اس میں بھردیتے ہیں کہ اس زمانہ میں کلام کے اندر وَزَن بغیر اس کے پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ہندوستان کے مصلح اعظم شیخ مجدد الف ثانیv نے اپنی مکتوبات میں جو کچھ لکھا ہے، اس سے آدمی سمجھ سکتا ہے کہ ہندی مسلمانوں کے اعمال واخلاق کا کیا حال تھا۔  ایک افسوس ناک مغالطہ جس میں یہ قوم مبتلا ہوئی، وہ یہ تھا کہ اس نے اپنے کو دوسری قوموں پر قیاس کیا، وہ اپنی زندگی کے قوانین کا استنباط بجائے آسمانی ہدایت کے غیر قوموں کی تاریخ سے کرنے لگی، حتیٰ کہ اسی بنیاد پر کسی نے اس کو مشورہ دیا کہ وراثت کا قانون چھوڑو، ورنہ مرجاؤگے، حال ہی میں ایک نیک نیت آدمی نے اپنی زبوں حالیوں کو دیکھ کر ایک عام آواز دی کہ مسلمانو! سود کھاؤ، تمہارے تنزل کا اصلی راز فقط یہی ہے کہ تم نے شیر مادر کی طرح سود کے گھونٹ کو حلق میں نہیں اُتارا ہے، إلٰی غیر ذلک من المشاورات۔ حالانکہ میں سچ کہتاہوں اور مجھ پر یہی ظاہر کیاگیاہے کہ اس قوم کا قانونِ حیات ان اقوام سے بالکل جداہے، جنہوں نے خدا کے آخری عہد کو ابھی قبول نہیں کیا ہے، ان کے نزدیک بجز ’’کائناتِ مادی‘‘ کے اور کسی ’’کائنات‘‘ کا راز واضح نہیں ہوا ہے، وہ جنہوں نے خدا کے اس آخری پیغام کو ابھی نہیں تسلیم کیا ہے، ان میں سے ابھی بکثرت ایسے ہیں جن کے ساتھ خدا کا ٹھیک وہی تعلق ہے جو زمین پر بسنے والے دوسرے جانوروں، چوپاؤں، درندوں، پرندوں کے ساتھ ہے، پس دوسرے اگر ’’کائناتِ روحانی‘‘ سے اعراض کرکے صرف ’’مادی کائنات‘‘ میں مشغول ہیں تو خداوندِ رحمن ان کو اسی طرح کھلائے گا، پلائے گا، جس طرح اپنی چڑیوں اور اپنے بندروں اور چوپاؤں کو کھلاتاہے۔ ہمالہ کا بندر اب بھی سرسبز درختوں کی ٹہنیوں پر آزادی سے اچھلتاہے، اس کے پھلوں اور میووں کو سیر ہو کر کھاتاہے اور ٹھنڈے چشموں کے پانی سے دل وجگر کو سیراب رکھتا ہے، خدا کے پرندوں کو دیکھو! کتنی نشاط کے ساتھ طاؤسِ دم کھول کر جنگلوں میں ناچتاہے اور چڑیاں جھوم جھوم کر شاخوں پر گاتی ہیں، چہچہاتی ہیں، بہرحال ان تمام جانوروں میں سے کون ہے جس کو مناسب غذا، عمدہ ہوا، اور اچھاپانی میسر نہیں؟ لیکن جس قوم نے ’’کائناتِ روحانی‘‘ کے آخری ظہور وبروز کو پہچانا اور اسی کی روشنی میں چلنے کا عہد کیا، پھر باوجود اس علم ویقین کے محض جبر وعناد، تکاسل وتہاون کی وجہ سے اس کو چھوڑا تو یہ کس طرح ممکن تھا کہ خدا کا غصہ ان پر تھم جاتا، پیشگوئی پوری ہوئی اور صاف نظر آگیا کہ جس قوم نے جاننے اور پہچاننے کے بعد ’’روحانی کائنات‘‘ کو چھوڑا، خدا بھی اُسے اپنی ’’مادی کائنات‘‘ سے دھکیل رہا ہے اور وہ تو دھکیل بھی چکا۔ ہم نے ٹیگس ودجلہ، جمنا پر آنسو بہایا، پھر اسی جرم میں کیا باسفورس اور نیل کی وادی میں رہنے والوں پر اعتراض نہ کیا جائے گا؟ پہلوں نے یونان وہند کے دماغی سیلاب کے ساتھ اپنے کو تباہ کیا اور پچھلوں نے برفستانِ یورپ کی طغیانیوں میں اپنے کو غرق کیا، یہ کہا جائے گا اور قطعاً کہا جائے گا، میری یہی تحریر (سیلِ راہ بنے گی) آنے والی نسلیں اسی سے استدلال کریںگی۔ کہا جاتاہے کہ ’’قرآن کو تھامو!‘‘ ایک عام آواز ہے، جو ہمیشہ مذہبی جماعت کی طرف سے مسلمانوں کے گھرانوں میں گونجتی رہی ہے، خصوصاً اس عہدِ انحطاط وزوال میں تو واعظوں اور منادیوں نے اس جملہ کو اپنا سخن تکیہ بنالیاہے، جو آتا ہے یہی کہتا ہے ، حالانکہ مسلمانوں کی جس جماعت میں قرآن کی درس وتدریس، شرح وتفسیر کا سلسلہ جاری ہے، ا س کی اخروی حالت کے متعلق تو کیا کہا جائے کہ وہ پیش نظر نہیں، لیکن دنیاوی حیثیت سے تو ایسا معلوم ہوتاہے کہ سب سے زیادہ ’’کائناتِ مادی‘‘ کا دروازہ جس قوم پر بند ہے، وہ یہی قوم ہے۔ مسلمان دنیا کی سب سے زیادہ ذلیل وخوار قوم ہے اور اس میں سب سے زیادہ خراب حالت مولویوں کی ہے۔ یقینا یہ صحیح ہے اور اس کو یوں ہی ہونا چاہیے، اس لیے کہ قرآن کے تھامنے کے معنی یہی نہیں ہیں کہ اس کا ترجمہ اور معنی سمجھ لیا جائے۔قرآن کے معانی ومطالب سے تو ابوجہل بھی واقف تھا، پھر کیا اس علم نے اس کو کچھ بھی فائدہ پہنچایا؟ یقینا قرآن کے محاورات وادبی نکات کو جتنا وہ سمجھتا ہوگا، ہندوستان کا ایک مولوی اتنا نہیں سمجھ سکتا ،پھر بھی اس کا خطاب ’’ابوجہل ‘‘کیوں ہوا؟ بلکہ اس ترجمہ کا جاننا ان کے لیے اور بھی وبالِ جان ہوجاتاہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ خداوندِ قدوس کا مواخذہ عموماً تبلیغ کی شدت وضعف کے ساتھ وابستہ ہے، جس کو جس درجہ کی تبلیغ ہوئی ہے اس کا مواخذہ بھی اسی درجہ کا ہوتا ہے، کسی نے سچ کہا ہے: وإن کنت لاتدری فتلک مصیبۃ

وإن کنت تدری فالمصیبۃ أعظم پس معنی کے جاننے والے مسلمان جن کو ہم علماء کہتے ہیں، یقینا باعتبارِ تبلیغ کے ان کا رُتبہ عام مسلمانوں سے بلند ہے اور اسی لیے اگر خدا کی گرفت ان کے ساتھ سخت ہے تو یہ خدا کی سنت ہے:’’ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا‘‘ اور میں یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ قرآن کے پڑھنے والوں میں ایسے بکثرت ہیں جن کی عملی حالت عام مسلمانوں سے بہت کم ممتاز ہوتی ہے اور جو کچھ ہوتی ہے وہ بھی قرآن کے اَثر سے نہیں، بلکہ اپنے شکم کے اثر سے، وہ جانتے ہیں کہ اگر ہم ان باتوں کو بھی چھوڑ دیںگے تو پیٹ کی پیاس پھر کسی طرح بھی بجھ نہیں سکتی۔ میری یہ گفتگو بہتوں پر گراں گزرے گی، حتیٰ کہ خود مجھ پر گراں گزررہی ہے، میرا نفس بھی اس حقیقت پر پَردہ ڈالنا چاہتا ہے، لیکن ’’بَلِ الْإِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ بَصِیْرَۃٌ وَلَوْ أَلْقٰی مَعَاذِیْرَہٗ‘‘ اور میں نے زیادہ تراسی کے علیٰ الرغم ان خیالات کو ظاہر کردیاہے، بہرحال درمیان میں ایک شبہ اور بھی آجاتاہے، اس کو بھی صاف کرلیا جائے، پھر آئندہ جو کچھ کہلایاجائے گا‘ کہوںگا۔ شبہ یہ ہے کہ میں نے گویا دنیاوی فراغ بالی اور افلاس کو خدا کی رضا اور عدم رضا کی علامت قرار دیا ہے، حالانکہ صحیح آثار واحادیث ایسے موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے غریب وفقیر، محتاج ونادار ایسے ہیں جو گو دنیا کی نگاہوں میں ذلیل ہوں، لیکن خدا کی نگاہ میں ان کی عزت ہوتی ہے، خود قرآن حکیم سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو کفار ان کی ناداری کی وجہ سے ’’أَذَلُّ‘‘ اور’ ’ أَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّأْیِ‘‘ وغیرہ کہتے تھے، اسلام میں ایسے اکابر اولیاء اللہ بکثرت گزرے ہیں جو دنیاوی حیثیت سے اپنے پاس کچھ نہیں رکھتے تھے۔ بلاشبہ ایسا ہی ہے اور میں بھی اسی کا قائل ہوں، لیکن یہاں پرایک نکتہ قابلِ لحاظ ضرور ہے کہ اس سلسلہ میں اشخاص وقوم‘ دونوں کے حالات مختلف ہیں، یہ ممکن ہے کہ ایک شخص خدا کے نزدیک مقرب ومعزز ہو، آخرت میں اس کے بڑے درجات ہوں، لیکن باری عز اسمہٗ نے خاص حالات(۱) کے اعتبار سے اس کے رزق کو محدود کردیا ہو، لیکن قومی نکبت وفلاکت کی حیثیت اور ہے، قرآن مجید نے کثرت سے اس مسکنت اور خواری کو عتابِ آسمانی سے تعبیر کیا ہے، مثلاً فرعون کی قوم کے متعلق ارشاد ہے: ’’کَمْ تَرَکُوْا مِنْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ وَّزُرُوْعٍ وَّمَقَامٍ کَرِیْمٍ وَّنَعْمَۃٍ کَانُوْا فِیْہَا فَاکِہِیْنَ کَذٰلِکَ وَأَوْرَثْنَاہَا قَوْمًا أٰخَرِیْنَ۔‘‘ ’’کتنے باغ اور کتنے سرچشمے اور کتنے کھیت اور کتنے باعزت مقام اور کتنی نعمتیں جس میں خوشی کے ساتھ زندگی بسر کررہے تھے، چھوڑ بیٹھے اور یوں ہی ہوتا ہے، اس کے بعد ہم نے دوسری قوم کو وارث بنادیا۔‘‘ یا یہود کے متعلق مختلف مقامات میں ارشاد ہے کہ :’’ضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ ‘‘ إلیٰ غیر ذٰلک من الآیات۔  پھر بتاؤ! کہ اگر میں آج اس قوم کے متعلق جویلدیز وسرائے باغیچہ کو چھوڑ نے پر مجبور ہے یا اس سے پہلے قلعہ معلی اور اعتماد الدولہ کے فلک نماایوانوں سے نکالے گئے یا قصر حمراء زہراء سے اُنہیں دھکیل دیاگیا، اس کو عتابِ الٰہی نہ سمجھوں تو کیا سمجھوں؟ شخصی افلاس کا اثر مرکزِ قومیت اور قوامِ ملَّت پر نہیں پڑتا اور اس قوم کے اصل مقصد کو اس سے کوئی گزند نہیں پہنچتا، لیکن قومی مسکنت جڑ ہلادیتی ہے اور جن مقاصد واغراض کے لیے اس قوم کا وجود پیدا کیا جاتا ہے، وہ سب اس کے بعد خاک میں مل جاتے ہیں، وہ آگے چل کر اُٹھنا بھی چ?

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین